بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

وظیفہ کرنا بدعت نہیں ہے


سوال

 حدیث شریف میں آتا ہے کہ جس نے ہمارے دین میں کوئی نئی چیز کی پس وہ مردود ہے تو آیا یہ وظیفہ کرنا اس زمرے میں کیوں نہیں آتا؟

جواب

مذکورہ حدیث کا مطلب ہے کہ دین میں ایسا کام کرنا جس کی اصل دین میں موجود نہ ہو، اور اسے دین کا حصہ بناکر (ثواب کا کام سمجھ کر) کیا جائے، وہ مردود ہے۔

وظیفہ فی نفسہ احادیثِ مبارکہ سے بھی ثابت ہے، بعض لوگوں کو رسول اللہ ﷺ نے پڑھنے کے لیے مخصوص کلمات بتائے اور بعض مواقع پر کلمات کی مخصوص تعداد بھی بتائی ہے، لہٰذا وظیفہ کا اصل تو بلاشبہ احادیثِ مبارکہ سے ثابت ہے، اور جس چیز کی اصل نص سے ثابت ہو، وہ بدعت نہیں ہوتی۔ نیز ایک وجہ یہ بھی ہے کہ عمومًا وظیفہ پڑھنے والا وظیفہ بطورِ علاج پڑھتاہے، اسے عبادت یا شریعت کا حصہ سمجھ کر نہیں پڑھتا، اور مباحات سے علاج جائز ہوتاہے، ہاں! جو چیز ناجائز اور حرام ہو، اسے علاج میں استعمال کرنا جائز نہیں ہوتا، اسی طرح جن کلمات کا معنٰی معلوم ہو، اور وہ معنٰی شرعًا درست بھی ہو، انہیں مؤثر بالذات سمجھے بغیر بطورِ علاج وظیفہ پڑھنا بھی جائز ہوگا۔

باقی ’’مجرباتِ اکابر ‘‘ (جس میں وظائف بھی شامل ہیں)  یعنی قرآنِ مجید اور حدیثِ مبارک سے صراحتاً غیر ثابت شدہ اعمال، وظائف یا نسخے، جو اکابر سے ثابت ہوں، خواہ وہ روحانی یا جسمانی امراض سے شفا کے حوالے سے ہوں یا دیگر جائز امور و مقاصد کے حل کے لیے ہوں، ان کی شرعی حیثیت جواز کی ہے۔  اس عمل کو اس نیت سے کرنا جائز ہے کہ یہ قرآن و حدیث سے ثابت نہیں، البتہ اس کی کوئی نہ کوئی اصل (خواہ اشارۃً ہو) قرآن وحدیث میں موجود ہوتی ہے۔  بہر حال اس کی حیثیت شریعت کے کسی مستحب عمل سے بھی کم درجے کی ہے۔مثلاً:  کسی موقع پر کوئی خاص ذکر کرنا۔ اس میں خاص موقع پر خاص ذکر تو کسی بزرگ کا تجربہ ہوگا، اور شرعی اعتبار سے اس کی حیثیت جواز کی ہوگی، اور قرآن وحدیث سے اس موقع کے لیے یہ خاص ذکر ثابت نہیں ہوگا، لیکن اس کی اصل یعنی اس میں موجود نفسِ ذکر قرآن وحدیث سے ثابت بھی ہے اور شرعاً مستحب بھی ہے۔ 

بدعت: ’’ ہر وہ کام جس کی کوئی  شرعی اصل، مثال یا نظیر  کتاب و سنت اور آثارِ صحابہ میں موجود نہ ہو (قرونِ اولیٰ ثلاثہ میں اس پر عمل کے امکان کے باوجود صحابہ وتابعین وتبع تابعین نے اسے اختیار نہ کیا ہو)  اور اس کو دین میں ثابت شدہ  اور ثواب کا کام سمجھ کر کیا جائے، یا کسی جائز و مستحب کام کو لازم سمجھ کر کیا جائے اور نہ کرنے والے کو موردِ طعن ٹھہرایا جائے وہ ’’بدعت‘‘ ہے‘‘۔

حافظ ابنِ حجر عسقلانی رحمہ اللہ علیہ بدعت کا اِصطلاحی مفہوم ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں :

"المحدثه" والمراد بها ما أحدث، وليس له أصلٌ في الشرع ويسمي في عرف الشرع ’’بدعة‘‘، وما کان له أصل يدل عليه الشرع فليس ببدعة، فالبدعة في عرف الشرع مذمومة بخلاف اللّغة : فإن کل شيء أحدث علي غير مثال يسمي بدعة، سواء کان محمودًا أو مذمومًا".

’’محدثہ امور سے مراد ایسے نئے کام کا ایجاد کرنا ہے جس کی شریعت میں کوئی اصل موجود نہ ہو، اسی محدثہ کو اِصطلاحِ شرع میں ’’بدعت‘‘ کہتے ہیں، لہٰذا ایسے کسی کام کو بدعت نہیں کہا جائے گا جس کی اصل شریعت میں موجود ہو یا وہ اس پر دلالت کرے۔ شرعی اعتبار سے بدعت فقط بدعتِ مذمومہ کو کہتے ہیں لغوی بدعت کو نہیں۔ پس ہر وہ کام جو مثالِ سابق کے بغیر ایجاد کیا جائے اسے بدعت کہتے ہیں چاہے وہ بدعتِ حسنہ ہو یا بدعتِ سیئہ۔‘‘( ابن حجر عسقلانی، فتح الباری، 13 : 253)

اس سے دونوں میں فرق واضح ہوجاتا ہے کہ ’’وظیفہ/ مجرب‘‘  کو دین کا ثابت شدہ حصہ نہیں سجھاجاتا، جب کہ ’’بدعت‘‘  کو دین کا ثابت شدہ حصہ اور لازم سمجھ کرکیاجاتا ہے، اگرکسی مجرب کو بھی لازم یا دین کا حصہ سمجھ کر کیا جانے لگے تو اسے بھی بدعت کہا جائے گا اور اس  کا ترک بھی واجب ہوگا۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144111201649

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں