بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

29 شوال 1445ھ 08 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

وعظ و بیان اور تجوید میں کمزور شخص کا امامت کرنا


سوال

ہمارے گاؤں کی مسجد کے  امام صاحب سے کچھ کمزوریوں کی بناء پر گاؤں کی اکثریت ناراض ہے ،جیسے قرآن کا صحیح نہ پڑھنا باعتبار تجوید اور لحن خفی کے اور وعظ میں بھی بہت کمزور ہیں، اس وجہ سے کچھ لوگ امام کے پیچھے نماز ہی نہیں پڑھتے ہیں اور اکثریت اگرچہ نماز باجماعت پڑھتے ہیں بوجہ مجبوری کے۔ان تمام باتوں کا علم امام صاحب کوبخوبی ہے ،امام صاحب کومسجد کی کمیٹی میں سے ایک شخص کی وجہ سے لوگ کچھ نہیں کہہ سکتے ہیں۔تو اس صورت میں امام صاحب کا مسجد میں امامت کرنا شریعت اور اخلاقیات کی رو سے کیسا ہے؟

جواب

جواب سے پہلے  چند  اہم باتوں کی  وضاحت ضروری ہے:

1۔ کسی  خاص شخص سے متعلق سوال پوچھنا ہو تو  ضروری  ہے کہ جو دعویٰ یا الزام ہو اس کا ثبوت بھی پیش کیا جائے،  یا نزاعی مسئلہ ہو تو جانبین کا موقف مستند ذرائع سے پیش کیا جائے، اس لیے مذکورہ سوال جیسے معاملات میں بہتر طریقہ یہ ہے کہ کسی مستند دار الافتاء میں ثبوت کے ساتھ ( مثلاً: تلاوت کی آڈیو  ریکارڈنگ کے ساتھ) حاضر ہوکر جواب معلوم کرلیا جائے۔

2۔ اور اگر ثبوت نہ ہوں تو کسی خاص شخص کے بارے میں سوال کرنے سے فساد برپا ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے، اس لئے  اگر عمومی مسئلہ دریافت کرنا ہو تو یوں سوال کرلیا جائے کہ  اس طرح قرأت کرنا کہ جس میں (مثلاً) ایک حرف کو دوسرے سے تبدیل کرنا پایا جاتا ہو یا صفات کی رعایت نہ رکھی جاتی ہو کیا حکم ہے؟ اور ایسی قرأت کرنے والے کے پیچھے نماز پڑھنے کا کیا حکم؟

بہتریہی ہے کہ مذکورہ امام کی قراءت کسی مستند مفتی یا دارالافتاء میں سنواکر نماز سے متعلق معلوم کرلیا جائے۔

 مرقاۃ المفاتیح میں ہے :

"(وإمام قوم) أي: الإمامة الكبرى، أو إمامة الصلاة (وهم له) : وفي نسخة: لها، أي الإمامة (كارهون) أي: لمعنى مذموم في الشرع، وإن كرهوا لخلاف ذلك، فالعيب عليهم ولا كراهة، قال ابن الملك: أي كارهون لبدعته أو فسقه أو جهله، أما إذا كان بينه وبينهم كراهة وعداوة بسبب أمر دنيوي، فلا يكون له هذا الحكم. في شرح السنة قيل: المراد إمام ظالم، وأما من أقام السنة فاللوم على من كرهه، وقيل: هو إمام الصلاة وليس من أهلها، فيتغلب فإن كان مستحقاً لها فاللوم على من كرهه، قال أحمد: إذا كرهه واحد أو اثنان أو ثلاثة، فله أن يصلي بهم حتى يكرهه أكثر الجماعة."

(3/865،ط:دارالفکر بیروت)

فتاوی شامی میں ہے :

"(ولو أم قوماً وهم له كارهون، إن) الكراهة (لفساد فيه أو لأنهم أحق بالإمامة منه كره) له ذلك تحريماً؛ لحديث أبي داود: «لا يقبل الله صلاة من تقدم قوماً وهم له كارهون». (وإن هو أحق لا)، والكراهة عليهم."

(کتاب الصلاۃ، باب الامامۃ، 1/559،ط:سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے :

"رجل أم قوما وهم له كارهون إن كانت الكراهة لفساد فيه أو لأنهم أحق بالإمامة يكره له ذلك وإن كان هو أحق بالإمامة لا يكره .هكذا في المحيط."

(کتاب الصلاۃ، الفصل الثالث فی بیان من یصلح امام لغیرہ، 1/87،ط:رشیدیہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144312100124

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں