بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

وٹہ سٹہ کی شادی کا شرعی حکم


سوال

زید اور خالد دو شخص ہیں اور ان دونوں کی ایک ایک بیٹی بھی ہے۔ زید نے اپنی بیٹی کا نکاح خالد سے کروا لیا تو کیا خالد اپنی بیٹی کا نکاح زید سے کروا سکتا ہے؟ مطلب یہ کہ کیا دونوں ایک دوسرے کی بیٹی سے نکاح کر سکتے ہیں؟

جواب

بصورتِ مسئولہ اگر زید نے اپنی بیٹی کا نکاح خالد سے باقاعدہ مہر طے کرکے کردیا، اور پھر خالد نے بھی اپنی بیٹی کا نکاح زید سے مستقل مہر طے کرکے کردیا تو یہ نکاح درست ہے، البتہ  اگر زید اور خالد میں سے ہر ایک اپنی بیٹی کی شادی دوسرے سے اس شرط پر کرے کہ ہر ایک دوسرے کو اپنی بیٹی نکاح میں دےگا اور حق مہر نہیں ہوگا، یعنی کہ ایک لڑکی کے بدلے میں دوسری لڑکی لی جائے، ایسی صورت کو "شغار"  کہتے ہیں جس سے آپﷺ نے منع فرمایا ہے، جیسے کہ حدیث شریف میں ہے:

"حضرت ابن عمررضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے "نکاحِ شغار" سے منع فرمایا ہے اور شغار یہ ہے کہ آدمی اپنی بیٹی کا نکاح اس شرط پر کرے کہ وہ اپنی بیٹی کا نکاح اسے کرکے دےگا اور ان کے درمیان مہر مقرر نہ کیا جائے (یعنی دونوں عورتوں کو ایک دوسری کا مہر تصورکیا جائے)۔"

(صحیح مسلم، باب تحريم نكاح الشغار وبطلانه، ج:2، ص:1034، ط:داراحیاء التراث العربی)،

لہذا از روئے شرع ایسی شادی کرنا ناجائز ہے۔ البتہ اگر زید اور خالد میں سے ہر ایک نے دوسرے کی بیٹی سے اس  کی مکمل رضامندی اور شرائط نکاح کے ساتھ نکاح کیا، جب کہ ہر لڑکی کا الگ سے مہر بھی مقرر ہو، تو یہ صورت نکاح شغار کی نہ ہونے کی وجہ سے شرعاً جائز ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(و وجب مهر المثل في الشغار) هو أن يزوجه بنته على أن يزوجه الآخر بنته أو أخته مثلا معاوضة بالعقدين وهو منهي عنه لخلوه عن المهر، فأوجبنا فيه مهر المثل فلم يبق شغارًا.

"(قوله: في الشغار) بكسر الشين مصدر شاغر اهـ ح (قوله: هو أن يزوجه إلخ) قال في النهر: وهو أن يشاغر الرجل: أي يزوجه حريمته على أن يزوجه الآخر حريمته ولا مهر إلا هذا، كذا في المغرب: أي على أن يكون بضع كل صداقًا عن الآخر، وهذا المقيد لا بد منه في مسمى الشغار، حتى لو لم يقل ذلك ولا معناه بل قال: زوجتك بنتي على أن تزوجني بنتك، فقبل أو على أن يكون بضع بنتي صداقًا لبنتك فلم يقبل الآخر بل زوجه بنته ولم يجعلها صداقًا لم يكن شغارًا بل نكاحًا صحيحًا اتفاقًا، وإن وجب مهر المثل في الكل."

(كتاب النكاح، مطلب نكاح الشغار، ج:3، ص:105، ط:ايج ايم سعيد)

فقط والله اعلم 


فتوی نمبر : 144205201187

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں