بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

وٹہ سٹہ کی شادی میں اگر مہر مقرر کیا ہو تو نکاح کا حکم


سوال

 میرا اور میری بہن کی شادی وٹہ سٹہ کی شادی ہے، ہمارا حق مہر بھی رکھا گیا ہے،  جیسا کہ اسلام میں وٹہ سٹہ والا نکاح  حرام ہے،   مجھے اس کے بارے میں ابھی پتہ چلا۔

اب ہم الحمدللہ اچھی زندگی گزار رہے ہیں، لیکن اب اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟ میں نے سنا ہے کہ اگر پہلے معلوم نہیں تھا اور شادی ہو گئی لیکن جب پتہ چلے تو اسے توڑ دینا ہو گا،  وضاحت فرمائیں۔

جواب

واضح رہے کہ وٹہ سٹہ کی شادی کو "نکاح شغار" کہاجاتا ہے، اور "نکاح شغار" کا مطلب یہ ہے کہ کوئی اپنی بیٹی یا بہن  کی شادی دوسرے سے اس شرط پر کرے کہ ہر ایک دوسرے کو اپنی بیٹی یا بہن  نکاح میں دےگا اور حق مہر نہیں ہوگا، یعنی کہ ایک لڑکی کے بدلے میں دوسری لڑکی لی جائے، اور اس سے آپﷺ نے منع فرمایا ہے، جیسے کہ حدیث شریف میں ہے:

"حضرت ابن عمررضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے "نکاحِ شغار" سے منع فرمایا ہے اور شغار یہ ہے کہ آدمی اپنی بیٹی کا نکاح اس شرط پر کرے کہ وہ اپنی بیٹی کا نکاح اسے کرکے دےگا اور ان کے درمیان مہر مقرر نہ کیا جائے (یعنی دونوں عورتوں کو ایک دوسری کا مہر تصورکیا جائے)۔"

(صحیح مسلم، کتاب النکاح، باب تحریم نکاح الشغار و بطلانہ، ج: 2، ص: 916، رقم: 1415، ط: بشری)

تاہم اوپر ذکر کی گئی صورت کے مطابق اگر کسی نے "نکاح شغار" کیاہو، تو ایسی صورت میں مہر مثل لازم ہوتاہےاور نکاح صحیح ہوجاتاہے، لیکن اگر دونوں جانب سے باقاعدہ مہر طے کر کے نکاح کیاجائے تو یہ صورت نکاح شغار کی نہ ہونے کی وجہ سے شرعاً جائز ہے۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں  جب ہر ایک نے دوسرےکی بہن  سے اس  کی مکمل رضامندی اور شرائط کے ساتھ نکاح کیا، جب کہ ہر لڑکی کا الگ سے مہر بھی مقرر  کرلیاتھا، تو اس صورت میں نکاح  شغار نہ ہونے کی وجہ سے مذکورہ نکاح شرعاً صحیح ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(ووجب مهر المثل في الشغار) هو أن يزوجه بنته على أن يزوجه الآخر بنته أو أخته مثلا معاوضة بالعقدين وهو منهي عنه لخلوه عن المهر، فأوجبنا فيه مهر المثل فلم يبق شغارا.

وفي الرد: (قوله: في الشغار) بكسر الشين مصدر شاغر اهـ ح (قوله: هو أن يزوجه إلخ) قال في النهر: وهو أن يشاغر الرجل: أي يزوجه حريمته على أن يزوجه الآخر حريمته ولا مهر إلا هذا، كذا في المغرب: أي على أن يكون بضع كل صداقا عن الآخر، وهذا القيد لا بد منه في مسمى الشغار، حتى لو لم يقل ذلك ولا معناه بل قال زوجتك بنتي على أن تزوجني بنتك فقبل أو على أن يكون بضع بنتي صداقا لبنتك فلم يقبل الآخر بل زوجه بنته ولم يجعلها صداقا لم يكن شغارا بل نكاحا صحيحا اتفاقا وإن وجب مهر المثل في الكل."

(‌‌كتاب النكاح، ‌‌باب المهر، مطلب نكاح الشغار، ج: 3، ص: 106، ط: سعید)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144501102438

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں