بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

وطنِ اقامت میں رہنے والےشخص نے قربانی نہیں کی، ایامِ نحر گزرنے کے بعد وطنِ اصلی لوٹا اور وہاں ابھی قربانی کا وقت باقی ہے تو فدیہ دے یا قربانی کرے؟


سوال

1- ایک شخص مال دار  صاحبِ  نصاب جس پر قربانی واجب تھی  وطنِ اقامت میں تھا، (یا  وطنِ اصلی میں تھا ؛ الغرض وہ مسافر شرعی نہیں تھا) ، اس پر وہیں قربانی کے تین دن (ایام نحر) گزر گئے، اس نے وہاں قربانی نہیں کی، جس کی وجہ سے اس پر بکری کی قیمت کا قضاءً  فدیہ واجب ہوگیا ، پھر وہ  جب   وہاں  سے اپنے  وطنِ  اصلی  (یا وطنِ اقامت) آیا تو  اسلامی تاریخی اختلاف  کے  بسبب  وہاں  پر  ابھی اَیامِ نحر باقی تھے ، تو یہ شخص اب وہ قضا  والا فدیہ دے ؟ یا قربانی کرے ؟ یا دونوں کام کرے؟ 

2- اگر اس شخص نے وہاں قضاءً فدیہ دے دیا تھا اور اب یہاں آیا ہے تو اس صورت میں کیا کرے ؟  قربانی کرے یا نہ کرے ؟

3- اگر اس شخص نے جانور بھی خریدا تھا ،مگر وہاں تین دن گزر گئے اور ذبح نہیں کیا، یہاں تک کہ اس پر قضاءً اس کی قیمت واجب التصدق ہوگئی ،پھر یہاں آیا تو اب اس صورت میں کیا کرے ؟

4- اسی طرح اگر اس نے وہاں قربانی ادا کی، (اَیامِ نحر میں پھر اَیامِ نحر ختم ہوگئے، اس کے بعد  یہ)  یہاں آیا اور  یہاں اَیامِ نحر  ہیں ،تو  کیا اس صورت میں  یہ  دوسری قربانی کرے گا یا نہیں ؟ کیوں کہ اَیامِ نحر ختم ہونے کے بعد جب واپس اَیامِ نحر آتے ہیں، وقت جو کہ سببِ وجوب ہے قربانی کا اس کا تکرار ہوگیا، تو اب اس پر دوسری قربانی واجب ہوگی یا نہیں ؟کیوں کہ احسن الفتاوی میں ہے کہ قربانی کے وجوب  کے لیے حولانِ  حول بھی ضروری نہیں ہے۔ 

جواب

1-  قربانی کے وجوب  میں آخر وقت کا اعتبار ہوتا ہے ،چنانچہ اگر کوئی آدمی اَیامِ نحر کے آخر  میں  مال دار ہوجائے تو اس پر قربانی واجب ہوتی ہے اگرچہ وہ شروع اَیام میں فقیر ہو ،اسی طرح کوئی شخص شروع اَیام میں مسافر ہو، مگر  آخر   وقت  میں   وہ  مقیم  بن  جائے تو  اس پر  قربانی واجب ہوجاتی ہے ،اسی طرح اور  صورتیں ہیں جو فقہاء نے ذکر کی ہیں ۔

لہذا صورتِ مسئولہ  میں اگر  قربانی کرنے والا اپنے وطنِ اصلی یا وطن اقامت میں آئے  اور اس وقت  وہاں قربانی کا آخری وقت  موجود ہوتو اس پر قربانی کرنا ہی واجب ہے ،قربانی کی قضا  والا فدیہ  لازم نہیں ہوگا ۔

2- قربانی ہی واجب ہوگی ،اگر چہ قضاء ً فدیہ دے دیا ہو،یہ فدیہ نفل ہوجائے گا،اس لیے کہ اس آدمی کے حق میں اَیامِ نحر باقی  ہیں ۔

3- صورتِ مسئولہ  میں جب یہ شخص اپنے   وطنِ اصلی یا وطنِ اقامت میں  پہنچا اور وہاں ابھی قربانی کا وقت باقی ہے تو اس شخص پر اپنے مقام میں ہی   کوئی جانور قربان کرنا واجب ہے،اگر جو جانور خریدا تھا وہ یہاں نہ آسکتا ہوتو اس کی جگہ اپنے موجودہ مقام میں کوئی اور جانور قربان کردے،البتہ دوسرا جانور خریدتے وقت اس بات کا خیال رکھنا ہو گا کہ وہ پہلے جانور سے کم قیمت والا نہ ہو، اگر دوسرا جانور پہلے کی قیمت سے کم قیمت کا ہو  تو دونوں جانوروں کی قیمت کے فرق کے بقدر رقم صدقہ کرنی پڑے  گی۔ 

4- اَیامِ نحر سال میں ایک ہی مرتبہ آتے ہیں ،یہ شخص جب اپنے وطنِ اصلی یا وطنِ اقامت میں پہنچا اور وہاں ابھی اَیامِ نحر باقی ہیں تو اس کے حق میں اس سال کے ایام نحر اور قربانی کا وقت ختم نہیں سمجھا جائے گا ،بلکہ باقی سمجھا جائے گا،لہذا اس سال اگر وہ قربانی کرچکا ہے تو اس پر دوبارہ قربانی واجب نہیں ہوگی۔

باقی  "احسن الفتاوی " کے حوالہ سے جو یہ بات ذکر کی ہے کہ قربانی کے وجوب کے لیے حوالانِ حول ضروری نہیں ہے ،اس کا تعلق قربانی کے وجوب کے نصاب سے ہے ،یعنی اگر کوئی آدمی اَیامِ نحر میں صاحبِ نصاب ہو تو اگر چہ اس مال پر سال نہ  گزرا ہو  تو بھی اس پر قربانی واجب ہوگی، برخلاف زکات کے،کہ زکات  میں حولانِ حول ضروری ہے ،اگر کوئی صاحبِ نصاب بن جائے تو اس پر ابھی زکات واجب نہیں ہوگی یہاں تک کہ اس مال پر سال گزر جائے اور  سال کے آخر میں بھی وہ صاحبِ نصاب ہو ۔

و في الدر المختار و حاشية ابن عابدين:

"(فجر) نصب على الظرفية (يوم النحر إلى آخر أيامه) وهي ثلاثة أفضلها أولها.

(قوله: إلى آخر أيامه) دخل فيها الليل وإن كره كما يأتي، وأفاد أن الوجوب موسع في جملة الوقت غير عين. والأصل أن ما وجب كذلك يتعين الجزء الذي أدى فيه للوجوب أو آخر الوقت كما في الصلاة وهو الصحيح وعليه يتخرج ما إذا صار أهلا للوجوب في آخره، بأن أسلم أو أعتق أو أيسر أو أقام تلزمه، لا إن ارتد أو أعسر أو سافر في آخره، ولو أعسر بعد خروج صار قيمة شاة صالحة للأضحية دينا في ذمته، ولو مات الموسر في أيامها سقطت، وفي الحقيقة لم تجب، ولو ضحى الفقير ثم أيسر في آخره عليه الإعادة في الصحيح لأنه تبين أن الأولى تطوع بدائع ملخصا، لكن في البزازية وغيرها أن المتأخرين قالوا: لاتلزمه الإعادة وبه نأخذ."

(رد المحتار6/ 316ط:سعيد)

وفي الدر المختار وحاشية ابن عابدين :

"(والمعتبر) (آخر وقتها للفقير وضده والولادة والموت، فلو كان غنيا في أول الأيام فقيرا في آخرها لا تجب عليه، وإن ولد في يوم الآخر تجب عليه، وإن مات فيه لا) تجب عليه."

(رد المحتار6/ 319ط:سعيد)

وفي الدر المختار وحاشية ابن عابدين:

"(ولو) (تركت التضحية ومضت أيامها) (تصدق بها حية ناذر) فاعل تصدق (لمعينة) ولو فقيرا، ولو ذبحها."

(رد المحتار6/ 320ط:سعي)

وفي الفتاوى الهندية :

" منها: أنها تجب في وقتها وجوباً موسعاً في جملة الوقت من غير عين، ففي أي وقت ضحى من عليه الواجب كان مؤدياً للواجب، سواء كان في أول الوقت أو في وسطه أو آخره، وعلى هذا يخرج ما إذا لم يكن أهلاً للوجوب في أول الوقت، ثم صار أهلاً في آخره، بأن كان كافراً أو عبداً أو فقيراً أو مسافراً في أول الوقت، ثم صار أهلاً في آخره فإنه يجب عليه، ولو كان أهلاً في أوله ثم لم يبق أهلاً في آخره بأن ارتد أو أعسر أو سافر في آخره لاتجب، ولو ضحى في أول الوقت وهو فقير فعليه أن يعيد الأضحية، وهو الصحيح، ولو كان موسراً في جميع الوقت ثم صار فقيراً صار قيمة شاة صالحة ديناً في ذمته يتصدق بها متى وجدها".

(5/ 293ط:دار الفكر)

وفي الفتاوى الهندية:

’’ رجل اشترى شاة للأضحية وأوجبها بلسانه، ثم اشترى أخرى جاز له بيع الأولى في قول أبي حنيفة ومحمد - رحمهما الله تعالى -، وإن كانت الثانية شرا من الأولى وذبح الثانية فإنه يتصدق بفضل ما بين القيمتين؛ لأنه لما أوجب الأولى بلسانه فقد جعل مقدار مالية الأولى لله تعالى فلا يكون له أن يستفضل لنفسه شيئا، ولهذا يلزمه التصدق بالفضل قال بعض مشايخنا: هذا إذا كان الرجل فقيرا فإن كان غنيا فليس عليه أن يتصدق بفضل القيمة، قال الإمام شمس الأئمة السرخسي الصحيح أن الجواب فيهما على السواء يلزمه التصدق بالفضل غنيا كان أو فقيرا؛ لأن الأضحية وإن كانت واجبة على الغني في الذمة فإنما يتعين المحل بتعيينه فتعين هذا المحل بقدر المالية لأن التعيين يفيد في ذلك.‘‘

(5/ 294ط:دار الفكر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144212200068

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں