بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

30 شوال 1445ھ 09 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

انڈین فلموں سے بچنے کے لئے ارطغرل نامی جیسے ویب سیریز دیکھنے کا حکم


سوال

 کیا جو لوگ انڈین ڈراما و فلم اور ناچ گانے کی ویڈیو دیکھتے ہیں، جس میں تقریبا ہر طرح کی خرابیاں پائی جاتی ہیں تو ان کے لیے ارطغرل غازی اور عثمان سیریز دیکھنا کیسا ہے؟ جب کہ یہ بات مستحکم ہو کہ(عمر سیریز)میں کوئی غلط بیانی نہیں کی گئی ہے،  ہر بات یا واقعہ پر حدیث کوڈ کیا گیا ہے تو کیا انڈین اور پاکستانی ڈراموں اور فحش فلموں میں ملوث افراد کے لیے عمر سریز دیکھنا کیا ایسا ہی ناجائز ہے جیسا انڈین ناچ گانا وغیرہ؟ کیوں کہ عمر سیریز میرے مطابق انڈین ڈراموں اور فحش فلموں سے بہتر ہے کہ اس کے ذریعے اسلامی تاریخ کا پتہ چلتا ہے،  اور مکمل فحش و بے حیائی کے گناہ سے بچاؤ بھی،  تو براہ کرم سوال کی نوعیت کے مطابق جواب فراہم کردیں کہ انڈین ڈراموں اور فحش فلموں اور گانا وغیرہ کے عادی افراد کے لیے عمر سیریز یا ارطغرل غازی یا دیگر اسلامی موضوعات پر بنی سچ فلمیں جس میں جھوٹ نہ ہو تو ان کا دیکھنا کیسا ہے؟

جواب

واضح رہے کہ تصویر کسی بھی جان دار کی  ہو اس کا بلا ضرورت بنانا، رکھنا اور  دیکھنا قطعاًجائز نہیں، نیز  خواتین  کی تصاویر دیکھنے  میں بد نظری کا گناہ بھی ہے، اسی طرح موسیقی کا سننا بھی شرعًا حرام ہے اور   مختلف سائلین کی طرف سے ارسال کردہ تفصیلات کے مطابق مذکورہ ڈرامہ / سیریز جان دار  کی تصاویر  پر مشتمل ہونے کے  ساتھ ساتھ عورتوں کی تصاویر اور موسیقی  پر بھی مشتمل ہے،  لہذا صورتِ  مسئولہ میں:

1: مذ کورہ (ارطغرل/ عمر  نامی) ڈراما  ہو  یا کوئی اور  انڈین ڈراما  یا فلم، کسی کا بھی  دیکھنا شرعاً جائز نہیں، حدیث شریف میں تصویرکشی پر سخت وعیدیں آئی ہے۔

2:   ڈراموں کو اگر جائز کام سمجھ کر دیکھا جائے تو یہ  شدید ترین گناہ بن جائے گا؛ کیوں کہ کسی بھی گناہ کے کام کو نیکی سمجھ کر کرنا بہت بڑا جرم ہے، حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عمل کو قرب قیامت کی علامات میں شمار کیا ہے، جیسا کہ حدیث شریف میں ہے:

"عن موسی بن أبي عیسی المدیني: قال: قال رسول الله صلى الله علیه و سلّم: ” كیف بكم إذا فسق فتیانکم و طغى نساءكم؟ قالوا: یا رسول اللہ! و إن ذلك لکائن؟ قال: نعم و أشدّ منه، کیف بکم إذا لم تأمروا بالمعروف و تنهوا عن المنکر؟ قالوا: یا رسول الله و إن ذلك لکائن؟ قال: نعم و أشدّ منه، کیف بکم إذا رأیتم المنکر معروفاً و المعروف منکراً".

(کتاب الرقائق لابن المبارک، باب فضل ذكر الله عز وجل، رقم الحدیث:1376، ج:1، ص:484، ط:دارالکتب العلمیۃ )

"ترجمہ: موسیٰ بن ابی عیسیٰ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:س وقت تمہارا کیا حال ہوگا جب تمہارے نوجوان بدکار ہوجائیں گے، اور تمہاری لڑکیاں اور عورتیں تمام حدود پھلانگ جائیں گی؟  صحابہ کرام نے عرض کیا، یا رسول اللہ! کیا ایسا بھی ہوگا؟ فرمایا: ہاں، اور اس سے بڑھ کر، اس وقت تمہارا کیا حال ہوگا: جب نہ تم بھلائی کا حکم کروگے، نہ بُرائی سے منع کروگے؟  صحابہ کرام نے عرض کیا، یا رسول اللہ! کیا ایسا بھی ہوگا؟ فرمایا: ہاں، اور اس سے بھی بدتر، اس وقت تم پر کیا گزرے گی  جب تم برائی کو بھلائی اور بھلائی کو بُرائی سمجھنے لگو گے؟۔"

نیز عام طور سے گناہ کو نیکی سمجھ کر کرنے والے کو توبہ کی توفیق نہیں ملتی ہے۔

3:  عموماً ٹی وی پر آنے والے پروگرام موسیقی ناچ گانے، بد نگاہی کے اسباب سے خالی نہیں ہوتے، لہذا اس قسم کے پروگراموں کو دیکھنا اور اس کو اچھا سمجھنااشاعتِ فاحش، و  معاونت علی الاثم کے قبیل سے ہےاور لوگوں کو ایک برائی سے بچاکر دوسرے برائی میں ڈالنا ہے،نیز دیکھنے والا خود تو گناہ گار ہے ہی دوسروں کو بھی گناہ میں مبتلا کرنے والا ہے، اور اس شخص کی ترغیب کی وجہ سے جتنے لوگ ڈراما  دیکھیں گے،سب کے گناہ میں یہ شخص برابر شریک ہوگا، جیسا کہ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

"قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من سن في الإسلام سنة حسنة فله أجرها وأجر من عمل بها من بعده من غير أن ينقص من أجورهم شيء ومن سن في الإسلام سنة سيئة كان عليه وزرها ووزر من عمل بها من بعده من غير أن ينقص من أوزارهم شيء» . رواه مسلم."

(مشکوۃ المصابیح، کتاب العلم، الفصل الاول، رقم الحدیث:210، ج:1، ص:73، ط:المکتب الاسلامی)

"ترجمہ: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اور جس شخص نے مسلمانوں میں کسی برے طریقے کی ابتدا کی اور اس کے بعد طریقے پر عمل کیا گیا تو اس طریقے پر عمل کرنے والے کا گناہ بھی اس شخص کے نامہ اعمال میں لکھا جائےگا اور عمل کرنے والے کے گناہ میں کوئی کمی نہیں ہوگی۔"

بہرحال نفس فلم/ سیریز/ ڈرامہ پر مشتمل ہر طرح کے پروگرام دیکھنے سے ہی مکمل اجتناب کرنا چاہیے، بلکہ موبائل کے ذریعہ بھی کسی بھی قسم کی ویڈیو دیکھنا جائز نہیں ہے، ورنہ یہ ایک گناہ سے نکل کر دوسرے بدتر گناہ میں مبتلاء ہونے کے مترادف ہوگا، اس سے بہتر یہ ہے کہ فلم/ سیریز دیکھنے کے تمام آلات سے دوری اختیار کرکے صدقِ دل سےتوبہ واستغفار کرکے اللہ تعالیٰ سے ہر طرح گناہ سے بچنے کی توفیق مانگنی چاہیے، ان شاء اللہ اس پر ربِّ باری کا تعاون بھی ساتھ رہےگا،  البتہ خلافتِ عثمانیہ کی تاریخ جاننے کے لیے مستند کتبِ تاریخ سے استفادہ کیا جاسکتاہے، اور اسلامی تاریخ پڑھنے کے لیے مستند اور جائز ذرائع کو ہی اختیار کرنا چاہیے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"وظاهر كلام النووي في شرح مسلم: الإجماع على تحريم تصوير الحيوان، وقال: وسواء صنعه لما يمتهن أو لغيره، فصنعته حرام بكل حال؛ لأن فيه مضاهاة لخلق الله تعالى، وسواء كان في ثوب أو بساط أو درهم وإناء وحائط وغيرها اهـ".

( كتاب الصلاة، مطلب: مكروهات الصلاة، ج:1، ص:667، ط: سعيد)

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح میں ہے:

 "(وعن نافع - رضي الله عنه - قال: كنت مع ابن عمر في طريق، فسمع مزمارا، فوضع أصبعيه في أذنه وناء) : بهمز بعد الألف أي: بعد (عن الطريق إلى الجانب الآخر) أي: مما هو أبعد منه (ثم قال لي: بعد أن بعد) : بفتح فضم أي: صار بعيدا بعض البعد عن مكان صاحب المزمار (يا نافع! هل تسمع شيئا؟) أي: من صوت المزمار (قلت: لا، فرفع أصبعيه من أذنيه، قال) : استئناف بيان وتعليل بالدليل (كنت مع رسول الله - صلى الله عليه وسلم - فسمع صوت يراع) : بفتح أوله أي: قصب (فصنع مثل ما صنعت) أي: من وضع الأصبعين في الأذنين فقط، أو جميع ما سبق من البعد عن الطريق ومراجعة السؤال والله أعلم. (قال نافع: وكنت إذ ذاك صغيرا) : ولعل ابن عمر أيضا كان صغيرا فيتم به الاستدلال والله أعلم بالحال، مع أنه قد يقال إنه أيضا كان واضعا أصبعيه في أذنيه، فلما سأله رفع أصبعيه فأجاب وليس حينئذ محذور، فإنه لم يتعمد السماع، ومثله يجوز للشخص أن يفعل أيضا بنفسه إذا كان منفردا، بل التحقيق أن نفس الوضع من باب الورع والتقوى ومراعاة الأولى، وإلا فلا يكلف المرء إلا بأنه لم يقصد السماع لا بأنه يفقد السماع والله أعلم.".

( باب البیان والشعر ، الفصْل الثالث، ج:9، ص:51، ط: مكتبه حنيفيه )

تفسير القرآن العظیم والسبع المثانی (روح المعاني)  میں ہے:

"يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا تُوبُوا إِلَى اللَّهِ تَوْبَةً نَصُوحًا عَسَى رَبُّكُمْ أَنْ يُكَفِّرَ عَنْكُمْ سَيِّئَاتِكُمْ وَيُدْخِلَكُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ...

أخرجه ابن مردويه عن ابن عباس قال: «قال معاذ بن جبل: يا رسول الله ما التوبة النصوح؟ قال: أن يندم العبد على الذنب الذي أصاب فيعتذر إلى الله تعالى ثم لا يعود إليه كما لا يعود اللبن إلى الضرع»...

وقال الإمام النووي: التوبة ما استجمعت ثلاثة أمور: أن يقلع عن المعصية وأن يندم على فعلها وأن يعزم عزما جازما على أن لا يعود إلى مثلها أبدا فإن كانت تتعلق بآدمي لزم رد الظلامة إلى صاحبها أو وارثه أو تحصيل البراءة منه، و ركنها الأعظم الندم.

و في شرح المقاصد قالوا: إن كانت المعصية في خالص حق الله تعالى فقد يكفي الندم كما في ارتكاب الفرار من الزحف وترك الأمر بالمعروف، وقد تفتقر إلى أمر زائد كتسليم النفس للحد في الشرب وتسليم ما وجب في ترك الزكاة، ومثله في ترك الصلاة وإن تعلقت بحقوق العباد لزم مع الندم، والعزم إيصال حق العبد أو بدله إليه إن كان الذنب ظلما كما في الغصب والقتل العمد، ولزم إرشاده إن كان الذنب إضلالا له، والاعتذار إليه إن كان إيذاء كما في الغيبة إذا بلغته و لايلزم تفصيل ما اغتابه به إلا إذا بلغه على وجه أفحش".

(سورة التحريم، رقم الآية:08، ج:14، ص:352، ط:داراحىاء التراث العربى)

فقط والله أعلم 


فتوی نمبر : 144506100493

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں