بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

وطنِ اقامت سے شرعی مسافت سے کم مقدار میں سفر کرنے کا حکم


سوال

اگر ایک شخص کراچی سے راولپنڈی  بیس دن کیلئے  جاتا ہے تو شرعی اعتبار سے وہ مقیم ہوگا ؛ کیوں کہ اس کی نیت بیس دن ٹھہرنے کی ہے،  لیکن اگر اس دوران وہی شخص پنڈی سے اسلام آباد  کسی کام کے لیے جائے   تو اسلام آباد میں یا وہاں سے واپس آکر پنڈی میں پھر پوری نماز پڑھے گا یا قصر پڑھے گا ؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر  مذکورہ شخص کا کراچی سے یہ ارادہ ہو کہ پنڈی میں 15 دن سے کم قیام کروں گا  ، اور پھر وہاں (پنڈی) سے اسلام آباد جاؤں گا تو دونوں جگہ مسافر شمار ہوگا،اور اگر   کراچی سے پنڈی اس نیت سے جاتا ہے کہ "وہاں (پنڈی میں ) 15 دن قیام کروں گا "تو یہ شخص پنڈی میں مقیم شمار ہوگا، پھر اگر وہاں (پنڈی) سے اسلام آباد کسی کام کے لیے جاتا ہے اور واپس ( پنڈی) آنے کا ارادہ ہے  تو اسلام آباد اور پنڈی کے درمیان مسافتِ سفر نہ ہونے کی وجہ سے دونوں جگہ  مقیم شمار ہوگا، اور پوری نماز پڑھے گا۔ 

مبسوط للسرخسی میں ہے:

"فالحاصل أن الأوطان ثلاثة. وطن قرار ويسمى ‌الوطن ‌الأصلي وهو أنه إذا نشأ ببلدة أو تأهل بها توطن بها. ووطن مستعار وهو أن ينوي المسافر المقام في موضع خمسة عشر يوما وهو بعيد عن وطنه الأصلي ووطن سكنى وهو أن ينوي المسافر المقام في موضع أقل من خمسة عشر يوما أو خمسة عشر يوما وهو قريب من وطنه الأصلي، ثم ‌الوطن ‌الأصلي لا ينقضه إلا وطن أصلي مثله، والوطن المستعار ينقضه ‌الوطن ‌الأصلي ووطن مستعار مثله والسفر لا ينقضه وطن السكنى لأنه دونه، ووطن السكنى ينقضه كل شيء إلا الخروج منه لا على نية السفر."

(كتاب الصلاة، باب صلاة المسافر، اقتداء المسافر بالمقيم في الصلاة، ج:2، ص:107، ط:دار المعرفة)

البحر الرائق میں ہے:

"ولو كان له ‌أهل ‌بالكوفة، وأهل بالبصرة فمات أهله بالبصرة وبقي له دور وعقار بالبصرة قيل البصرة لا تبقى وطنا له؛ لأنها إنما كانت وطنا بالأهل لا بالعقار، ألا ترى أنه لو تأهل ببلدة لم يكن له فيها عقار صارت وطنا له، وقيل تبقى وطنا له؛ لأنها كانت وطنا له بالأهل والدار جميعا فبزوال أحدهما لا يرتفع الوطن كوطن الإقامة يبقى ببقاء الثقل وإن أقام بموضع آخر."

(كتاب الصلاة، باب صلاة المسافر، اقتداء مسافر بمقيم في الصلاة، ج:1، ص:147، ط:دار الكتاب الإسلامي)

الجوہرۃ النیرۃ میں ہے:

"(قوله: وإن دخل بلدا ولم ينو أن يقيم فيه خمسة عشر يوما وإنما يقول غدا أخرج أو بعد غد أخرج حتى بقي على ذلك سنين صلى ركعتين) لأن ابن عمر أقام بأذربيجان ستة أشهر وكان يقصر وعن أنس أنه أقام بنيسابور سنة يقصر."

(كتاب الصلاة، باب صلاة المسافر، ج:1، ص:86، ط:المطبعة الخيرية)

الاِختیار لتعلیل المختار میں ہے:

"قال : (و لايزال على حكم السفرحتى يدخل مصره أو ينوي الإقامة خمسة عشر يوما في مصر أو قرية ) لأن السفر إذا صح لايتغير حكمه إلا بالإقامة ، والإقامة بالنية أو بدخول وطنه ، لأن الإقامة ترك السفر ، فإذا اتصل بالنية أتم."

(كتاب الصلاة، باب صلاة المسافر، ج:1، ص:79، ط:دار الكتب العلمية)

بدائع الصنائع میں ہے:

"(ووطن) الإقامة ينتقض بالوطن الأصلي؛ لأنه فوقه، وبوطن الإقامة أيضا؛ لأنه مثله، والشيء يجوز أن ينسخ بمثله، وينتقض بالسفر أيضا؛ لأن توطنه في هذا المقام ليس للقرار ولكن لحاجة، فإذا سافر منه يستدل به على قضاء حاجته فصار معرضا عن التوطن به، فصار ناقضا له دلالة، ولا ينتقض وطن الإقامة بوطن السكنى؛ لأنه دونه فلا ينسخه."

(كتاب الصلاة، فصل بيان ما يصير المسافر به مقيما، ج:1، ص:103، ط:دار الكتب العلمية)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(من خرج من عمارة موضع إقامته)....(قاصدا)....(مسيرة ثلاثة أيام ولياليها)من أقصر أيام السنة ولا يشترط سفر كل يوم إلى الليل بل إلى الزوال ولا اعتبار بالفراسخ على المذهب....(صلى الفرض الرباعي ركعتين) وجوبا."

(‌‌كتاب الصلاة، ‌‌باب صلاة المسافر، ج:2، ص:123، ط:سعيد)

آپ کے مسائل اور ان کا حل میں ہے:

"سوال: ہمارا ایک مستقل گھر صوبہ سرحد میں ہے، اور ایک مستقل ٹھکانا کراچی میں ،اور اگر ہم سرحد سے کراچی کسی کام کے لیے آئیں اور کراچی میں پندرہ دن سے کم رہنے کا ارادہ ہو تو کیا نماز قصر پڑھنی ہوگی یا پوری؟

جواب: خلاصہ یہ ہے کہ جب تک یہاں (کراچی)آپ کا کرائے کا مکان ہے، اور جب تک یہاں آپ کا سامان رکھا ہے، اور آپ کی نیت یہ ہے آپ  کو واپس آکر یہاں رہنا ہے، اس وقت  تک یہ  کا وطنِ اقامت ہے۔"

 (کتاب الصلاۃ، مسافر کی نماز،   ج:4، ص:82، ط:مکتبۃ لدھیانوی)

وفيه ايضاً:

"سوال: مسئلہ یہ ہے کہ میں یہاں پندرہ دن سے زائد تقریباً ڈیڑھ ماہ کے لیے (کوئٹہ سے چکوال) آئی ہوں، اور پوری نماز پڑھ رہی ہوں، لیکن تین  چار دن کے لیے لاہور چکوال سے جانا پڑا، میں نے لاہور میں قصر نمازیں اداکیں ، کیا یہ درست ہے؟ اگر درست نہیں تو کفارہ کیا ہے؟

جواب:جب آپ چکوال سے لاہور گئیں تو لاہور میں مسافر تھیں، اس لیے قصر ہی پڑھنی چاہیے تھی، اس لیے آپ نے ٹھیک کیا۔"

(کتاب الصلاۃ، مسافر کی نماز،   ج:4، ص:84، ط:مکتبۃ لدھیانوی)

فقط واللہ اَعلم


فتوی نمبر : 144503100879

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں