بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

وطن اقامت میں نماز کا حکم


سوال

میرا ایک رشتہ دار ہے، اس کا گھر کراچی میں بھی ہے لیکن اس گھر میں اس کے والدین بیوی بچے نہیں ہیں وہ خود اور اس کی بیوی بچے کوئٹہ میں رہتے ہیں، اور وہ اس سے پہلے بھی کراچی آتا رہا ہے اور پندرہ دن قیام کرچکا ہے لیکن ابھی وہ علاج کے لیے دوبارہ کراچی آیا ہے اور معلوم نہیں کہ اس مرتبہ کتنا قیام کرے گا، پندرہ دن بھی ہوسکتا ہے اور پندرہ دن سے کم بھی، لیکن کنفرم نہیں ہے۔

سوال یہ ہے ابھی جب وہ علاج کے سلسلے میں آیا ہے تو وہ نماز قصر پڑھے گا یا پوری پڑھے گا؟

جواب

اگر مذکورہ شخص کا آبائی شہر کوئٹہ ہے اور وہیں اس کا گھر بار بھی ہے تو کوئٹہ اس کا وطنِ اصلی ہے اور اگر کراچی میں بھی گھر ہے اور اس گھر میں ایک مرتبہ پندرہ دن سے زائد قیام بھی کرچکا ہے تو کراچی اس کا وطنِ اقامت بن چکاہے، لہذا جب تک اس گھر میں رہائش کا ساز و سامان (بستر وغیرہ) موجود رہے گا تب تک کراچی اس کے لیے وطن اقامت رہے گا، اس لیے جب بھی یہ شخص کراچی آئے گا اتمام کرے گا یعنی پوری نماز پڑھے گا اگرچہ ایک دو دن ہی قیام کی نیت ہو۔

البحر الرائق میں ہے:

"(قوله ويبطل الوطن الأصلي بمثله لا السفر ووطن الإقامة بمثله والسفر والأصلي) ؛ لأن الشيء يبطل بما هو مثله لا بما هو دونه فلا يصلح مبطلا له وروي أن عثمان - رضي الله عنه - كان حاجا يصلي بعرفات أربعا فاتبعوه فاعتذر، وقال: إني تأهلت بمكة وقال النبي - صلى الله عليه وسلم - «من تأهل ببلدة فهو منها» والوطن الأصلي هو وطن الإنسان في بلدته أو بلدة أخرى اتخذها دارا وتوطن بها مع أهله وولده، وليس من قصده الارتحال عنها بل التعيش بها وهذا الوطن يبطل بمثله لا غير... كوطن الإقامة يبقى ببقاء الثقل وإن أقام بموضع آخر اهـ."

(كتاب الصلاة، باب صلاة المسافر، 2/ 147، ط: دار الكتاب الإسلامي بيروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144411101214

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں