بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

وطن اصلی سے دور قیدی جیل میں قصرکرے گا یااتمام ؟


سوال

کیافرماتےہیں علماء کرام ومفتیان عظام اس مسئلہ کے بارے میں کہ قیدی جیل میں قصرکرےگایااتمام؟ جب کہ وہ وطن صلی سے سفرِشرعی کے بقدردورہے ، اوراگرقصر لازم ہونے کی صورت میں اتمام کیاہوتونمازیں درست ہوں گی یااعادہ کرےگا؟۔

جواب

صورت مسئولہ میں اگرقیدی اپنے وطن سے سفرِ شرعی کے دوری پرہوتوقصراوراتمام کے بارےمیں قیدی کی نیت کااعتبارنہیں ہے ، بلکہ جس نے قید کیاہے اس کی نیت کااعتبارہے ۔ لہذااگرقیدی کواعلان یاقرائن سے معلوم ہوکہ اسےپندرہ دن یااس سے زیادہ اسی مقام پررکھاجائےگاتواس صورت میں قیدی اتمام کرےگایعنی پوری نمازپڑھےگا، اگرقیدی کواعلان یاقرائن سےمعلوم نہ ہوکہ اسےپندرہ دن یااس سے زیادہ اسی مقام پر رکھاجائے توقصرکرے گا۔

فتاوی شامی میں ہے :

(والمعتبر نية المتبوع) لأنه الأصل (لا التابع كامرأة) ..........وأسير وغريم وتلميذ (مع زوج ومولى وأمير ومستأجر) لف ونشر مرتب۔

وفی الرد: (قوله وأجير) أي مشاهرة أو مسانهة كما في التتارخانية؛ أم لو كان مياومة بأن استأجره كل يوم بكذا فإن له فسخها إذا فرغ النهار فالعبرة لنيته. قال في البحر: وأما الأعمى مع قائده فإن كان القائد أجيرا فالعبرة لنية الأعمى، وإن متطوعا تعتبر نيته.

(قوله: وأسير) ذكر في المنتقى أن المسلم إذا أسره العدو إن كان مقصده ثلاثة أيام قصر وإن لم يعلم سأله فإن لم يخبره وكان العدو مقيما أتم وإن كان مسافرا قصر؛ وينبغي أن يكون هذا إذا تحقق أنه مسافر وإلا يكون كمن أخذه الظالم لا يقصر إلا بعد السفر ثلاثا وكذا ينبغي أن يكون حكم كل تابع يسأل متبوعه فإن أخبره عمل بخبره وإلا عمل بالأصل الذي كان عليه من إقامة وسفر حتى يتحقق خلافه وتعذر السؤال بمنزلة السؤال مع عدم الإخبار شرح المنية۔

(الدرالمختار مع الرد المحتار ، کتاب الصلاۃ ، باب صلاۃ المسافر  2/ 134ط : سعید)

اب اگرکسی قیدی نےقصرنمازلازم ہونے کے باوجود  ظہر، عصر اور عشاء کی نماز میں  بھول کر دو رکعت کے بجائے چار رکعتیں پڑھ لیں تو اگر دوسری رکعت  پر قعدہ کرلیا تھا  اور آخر میں سجدہ سہو بھی کرلیا تھا تو نماز درست ہوجائے گی، اور اگر آخر میں سجدہ سہو نہیں کیا تو اس نماز کے وقت کےاندر اس کا اعادہ واجب ہے ، وقت  گزرنے کے بعد اعادہ مستحب ہے۔ اور اگر   مسافر نے دوسری رکعت پر قعدہ  نہیں کیا  تو اس کا فرض ہی ادا نہ ہوگا، اعادہ کرنا واجب ہوگا۔اور اگر جان کر چار رکعات پڑھیں تو فرض ادا ہوجائے گا، لیکن  گناہ گار ہوگا  ؛ اس لیے کہ اس میں کئی قسم کی کراہتیں جمع ہوجاتی ہیں۔

فتاوی شامی  میں ہے :

(فلو أتم مسافر إن قعد في) القعدة (الأولى تم فرضه و) لكنه (أساء) لو عامدا لتأخير السلام وترك واجب القصر وواجب تكبيرة افتتاح النفل وخلط النفل بالفرض، وهذا لا يحل۔

(الدرالمختارمع ردالمحتار باب صلوٰۃ المسافر ۲/۱۲۸ ط :سعيد)

حاشية الطحطاوی على مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح  میں ہے:

"وحكم الواجب استحقاق العقاب بتركه عمدا وعدم إكفار جاحده والثواب بفعله ولزوم سجود السهو لنقض الصلاة بتركه سهوا وإعادتها بتركه عمد أو سقوط الفرض ناقصا إن لم يسجد ولم يعد.

 قوله: "إستحقاق العقاب" هو دون عقاب ترك الفرض قوله: "والثواب بفعله" هو الحكم الأخروي وأما الحكم الدنيوي فهو سقوط المطالبة قوله: "وإعادتها بتركه عمدا" أي ما دام الوقت باقيًا وكذا في السهو ان لم يسجد له وإن لم يعدها حتى خرج الوقت تسقط مع النقصان. وكراهة التحريم ويكون فاسقا آثما وكذا الحكم في ‌كل ‌صلاة ‌أديت ‌مع ‌كراهة ‌التحريم والمختار أن المعادة لترك واجب نفل جابر والفرض سقط بالأولى لأن الفرض لا يتكرر كما في الدر وغيره ويندب إعادتها لترك السنة."

 

(فصل فى بيان واجبات الصلوة، ص:247/48، ط:دارالكتب العلمية)

وفيه ايضا:

"كل ‌صلاة ‌أديت ‌مع ‌كراهة ‌التحريم تعاد أي وجوبا في الوقت وأما بعده فندبا."

(كتاب الصلاة ، باب قضاء الفوائت ص:440 ط:دارالكتب العلمية)

فقط و اللہ اعلم


فتوی نمبر : 144403100424

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں