بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

وطن اصلی کے علاوہ دوسری جگہ عارضی طورپر گھر لینے کی صورت میں وہاں قصر کا حکم


سوال

ایک شخص کے دو گھر ہوں مختلف شہروں میں، جن کی مسافت اڑتالیس میل سے زیادہ ہے، وہ اپنے دوسرے گھر جاتا ہو جو کہ عارضی ہے یعنی ایک سال کے لیےہے، تو اس گھر میں وہ نماز قصر ادا کرے یا پوری پڑھے؟

جواب

 صورتِ مسئولہ میں دوسرا گھر عارضی رہائش کے لیے ہے ہمیشہ رہنے لے لیے نہیں ہے تو اگر  دوسرے گھر  میں پندرہ دن یا اس سے زیادہ ٹھہرنے کی نیت کرے گا   تو دوسرے گھر میں پوری نماز پڑھنا واجب ہوگا۔ اگر پندرہ دن سے کم مدت کے لیے  ٹھہرنے کی نیت  ہو تو پھر قصر نماز پڑھےگا۔

اگر عارضی گھر میں ایک مرتبہ پندرہ دن قیام کی نیت سے ٹھہرگیا اور وہاں کچھ سامان بھی موجود ہے کہ دوبارہ لوٹ کر وہاں آئے گا تو  اس گھر میں بھی بہرصورت نماز مکمل پڑھے گا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(الوطن الأصلي) هو موطن ولادته أو تأهله أو توطنه.

وفي الرد: (قوله : أو توطنه) أي عزم على القرار فيه وعدم الارتحال وإن لم يتأهل، فلو كان له أبوان ببلد غير مولده وهو بالغ ولم يتأهل به فليس ذلك وطنا له إلا إذا عزم على القرار فيه وترك الوطن الذي كان له قبله شرح المنية."

(رد المحتار، كتاب الصلاة، باب صلاة المسافر، مطلب في الوطن الأصلي ووطن الإقامة، ج: 2، ص: 131، ط: سعيد)

البحر الرائق میں ہے:

"كوطن الإقامة تبقى ببقاء الثقل وإن أقام بموضع آخر۔۔۔ وأما وطن الإقامة فهو الوطن الذي يقصد المسافر الإقامة فيه، وهو صالح لها نصف شهر."

(كتاب الصلاة، باب المسافر، ج: 2، ص: 239، ط: دار الكتب العلمية)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144411100080

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں