بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

وطن اصلی کو ختم کر کے دوسرا بنانے کے بعد پہلی جگہ نماز پڑھنے کا حکم


سوال

ہم اور کزئی ایجنسی کے رہنے والے تھے، ہمارے علاقے میں آپریشن ہوا، جس کی وجہ سے اب ہم کوہاٹ میں رہتے ہیں،وہاں کے جتنے گھر تھے، وہ منہدم ہوگئے، اب ہم اگر کسی غرض یا تفریح کے لیے اپنے وطن جاتے ہيں تو کیا ہم پوری نماز ادا کریں گے یا قصر؟ اور فی الحال وہاں مستقل جانےکا ارادہ بھی نہیں ہے۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر سائل  اورکزئی ایجنسی میں واقع اپنے سابقہ وطن میں پندرہ دن سے کم ٹھہرنے کا ارادے سے جائے تو قصر نماز ادا کرے گا، کیوں کہ گھروں کے ختم ہونے اور اس جگہ کو وطن برقرار نہ رکھنے کی نیت کی وجہ سے سائل کے لیے اب وہ جگہ وطنِ اصلی نہیں رہی۔ 

بدائع الصنائع میں ہے:

"الأوطان ثلاثة: وطن أصلي: وهو وطن الإنسان في بلدته أو بلدة أخرى اتخذها دارا وتوطن بها مع أهله وولده، وليس من قصده الارتحال عنها بل التعيش بها۔"

(کتاب الصلوٰۃ، فصل بيان ما يصير المسافر به مقيما، ص:103، ج:1، ط:سعید)

فتح القدیر میں ہے:

"(ومن كان له وطن فانتقل عنه واستوطن غيره ثم سافر ودخل وطنه الأول قصر) ؛ لأنه لم يبق وطنا له 

وفی الشرح:(قوله: فانتقل عنه واستوطن غيره) ‌قيد ‌بالأمرين ‌فإنه ‌إذا لم ينتقل عنه بل استوطن آخر بأن اتخذ له أهلا في الآخر فإنه يتم في الأول كما يتم في الثاني۔"

(كتاب الصلوٰۃ، باب صلوٰۃ المسافر، ص:43، ج:2، ط:دار الفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307100733

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں