بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

وصیت کو نافذ کرنے میں تاخیر کرنے کا حکم


سوال

ایک آدمی نے وصیت کی مثلا کہ فلاں مدرسے کو میرے مال سے ایک لاکھ روپے دے دینا لیکن مرحوم نے مال نہیں چھوڑا ہے بلکہ سب کے سب ترکہ مکانات اور دکانوں کی شکل میں ہے اور حال یہ ہے کہ اس وقت دکانوں اور مکانوں کی قیمت بہت کم ہے ،تو ورثاء کہتے ہیں کہ ابھی ان کی قیمت بہت کم ہے لہٰذا کچھ مدت گزر جانے کے بعد جب ویلیو کچھ بڑھ جائے گی تو فروخت کر کے ثلث مال سے وصیت ادا کریں گے۔ اب پوچھنا یہ ہے کہ کیا وصیت کی ادائیگی میں تاخیر کرنا جائز ہے یا نہیں؟ مرحوم کی وصیت کیسے نافذ کریں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں مرحوم نے جوکچھ ترکہ میں چھوڑا ہے مرحوم کا ترکہ ہے،سب سے پہلے تجہیز و تکفین کا خرچ نکالا جائے،اس کے بعد اگر مرحوم نے کسی کا قرض دینا ہوتو وہ اداکیا جائے ،اس کے بعد مرحوم نے بقیہ جو کچھ چھوڑا ہے اس کے  ایک تہائی حصے میں سے اس وصیت کو نافذ کردیا جائے گا،اس کے بعد ورثاء کا حق ہے کہ آپس میں ترکہ تقسیم کریں،لہذا ورثاء کو چاہیے کہ جلد از جلد مرحوم کی وصیت کے مطابق مذکورہ رقم مذکورہ مدرسہ کو دیں تاکہ مرحوم کی روح کو اس کا ثواب پہونچنے لگ جائے، واضح رہے کہ مرحوم نے جو مکانات اور دوکانیں چھوڑی ہیں،وہ بھی مال ہے،ان میں سے کوئی چیز فروخت کرکے وصیت پر عمل کیا جاسکتاہے۔

نیز جائیداد کی قمیت کم ہونا وصیت پر عمل میں تاخیر کی شرعی وجہ نہیں بن سکتی جبکہ ورثاء کا حق جائز وصیت پر عمل کرنے کے بعد ہے۔

الفقہ الاسلامی و ادلتہ میں ہے:

"تنفيذ وصاياه: تنفذ الوصايا من ثلث المال الباقي لامن ثلث أصل المال بعد أداء ‌الحقوق ‌المتقدمة، لقوله تعالى: {من بعد وصية يوصى بها أو دين} [النساء:11/ 4]؛ لأن ما تقدم قد صرف في ضروراته التي لا بد منها، فالباقي هو مال الميت الذي أجاز له الشرع أن يتصرف في ثلثه، ولا تنفذ وصاياه فيما زاد عليه إلا بإجازة الورثة، سواء أكان الموصى له أجنبياً أم وارثاً؛ فإن أجازوا نفذت، وإن أجاز بعضهم دون بعض، نفذت في مقدار حصة المجيز دون غيره. كما لاتنفذ الوصية لوارث مطلقاً إلا بإجازة الورثة، سواء أكانت أقل من الثلث أم أكثر."

(الباب السادس: الميراث، الفصل السادس: الحقوق المتعلقة بتركة الميت،ج: 10،ص: 7733، ط: دار الفكر)

بدائع الصنائع میں ہے:

"فإن قال الموصي أحجوا عنى بثلث مالي، وثلث ماله يبلغ حججا حج عنه حججا كذا روى القدوري في شرحه مختصر الكرخي ......ثم الوصي بالخيار إن شاء أحج عنه الحجج في سنة واحدة، وإن شاء أحج عنه في كل سنة واحدة، والأفضل أن يكون في سنة واحدة؛ لأن فيه تعجيل تنفيذ الوصية، والتعجيل في هذا أفضل من التأخير."

(کتاب الحج ،فصل فی سبب وجوب الحج،ج: 2، ص: 223، دار الکتب العلمية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144403100275

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں