توبہ کی ایک شرط جو ہے گناہوں پرندامت اس میں ندامت سے کیا مراد ہے؟مطلب اگر کسی سے خدانخواستہ کلماتِ کفر صادر ہوئے ہیں، تو اسے کس طرح سے نادم ہونا چاہیے، اس پر ؟میرے سے کلمات کفر صادر ہوئے تھے، جب مجھے پتا چلا کہ ان کلمات کے کہنے سے انسان دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے، تو اللہ نے مجھے تو بہ کی توفیق دی،" الحمدللہ" اور میں نے توبہ کر کے تجدیدِ ایمان کرلیا، لیکن میں نے توبہ کرتے ہوئے یہ سوچا تھا ،کہ اگر میں نے توبہ نہ کی تو اس گناہ کی وجہ سے میں دائرہ اسلام سے خارج ہونے کی وجہ سے ہمیشہ کیلئے جہنم کی آگ میں جلوں گا، اور اللہ بھی ناراض ہو گا ،میرے کسی نیک عمل کا بدلہ مجھے نہیں ملے گا، مطلب جیسا میرا اللہ مجھے چاہتا ہے ،میں ویسی نہیں ہوں گا، تو فائدہ اور یہ خیال دل میں آتے ہی میں نے توبہ کی تو کیا یہ ان کفریہ کلمات پر ندامت کے زمرے میں نہیں آتا؟اگر نہیں آتاتو مجھے بتائے میں کیسے ندامت اختیار کروں، ان کلماتِ کفر پر کیوں کہ ندامت کا تعلق جذبات سے ہے ،یہ کوئی عملی کام نہیں ہے ،جسے آپ کر سکتے، اور ایک کلمہ کفر میرے سے سبقت لسانی کی وجہ سے صادر ہوا ،باقی لاعلمی، اور جہالت کی بنا پر ہنسی مذاق میں ،اور مجھے نہیں پتا کہ ان پر ندامت کیسے اختیار کروں،میرے ایمان کا معاملہ ہے میں بہت پریشان ہوں، نیز تجدید ایمان کا کیا طریقہ ہے؟ اور اگر اللہ کی رحمت پر بھروسہ کرتے ہوئے کہ اللہ غفور رحیم ہے، توبہ کرنے والوں کو پسند کرتا ہے، اور ندامت سے زیادہ اس کی رحمت پربھروسہ کرتے ہوئے، توبہ اور تجدیدِ ایمان کروں ،تو کیا اس سے دائرہ اسلام میں داخل نہیں ہوگا، خدانخواستہ اگر نہیں تو ندامت اختیار کرنے کیلئے کیاکروں ؟ میں تجدید ِایمان کرتا ہوں، تو بار بار میرے دل میں خیال آتا کہ تمہیں ندامت نہیں ہے ،تم دائرہ اسلام میں داخل نہیں ہوئے، اور مجھے لگتاہے، واقعی ایسا ہی ہے ،اور میں ہر 5 منٹ بعد دوبارہ تجدیدِ ایمان کرتاہوں، میں کیا کروں میں دائرہ اسلام سے خارج نہیں ہونا چاہتا لیکن مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا ،میں کیا کروں میں ذہنی مریض بنتا جا رہا ہوں ،مجھے لگ رہا ہے، لیکن میں کیا کروں میری پریشانی بھی تو بجا ہے، ایمان کی دولت سب سے بڑی دولت ہے، میں اس کو کھونا نہیں چاہتا، اوررائی کے دانے کے برابر ایمان کتنا ہوتا ہے؟کیا اس کا اطلاق ایمان کی ستر شاخوں میں سے کسی ایک شاخ پر ہوتا ہے؟
آپ کے اکثرسوالات کا جوابات فتوی نمبر :144502101733 اور فتوی نمبر:144502101087میں دیے جا چکےہیں۔
نیزآپ سوالات سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ وہم اوروسوسہ کے مرض میں مبتلاہیں، اور یہ مرض ایک شیطانی اثرہے،اور شیطان اس بات سے خوش ہوتا ہےکہ کسی مسلمان کو شک، اور وسوسہ میں مبتلا کردے، تاکہ وہ عبادت وغیرہ ادا نہ کر سکے، وہم سے پریشان نہیں ہونا چاہیے، اس کا سب سے کارِگر علاج یہی ہے کہ اس کی طرف بالکل توجہ نہ دی جائے۔
نیزرائی کے دانےکے برابر ایمان سے مراد یہ ہے کہ وہ بندہ جس کے پاس کوئی بھی عمل نہ ہو،گناہ کے انبار لیے ہوئے ہو،لیکن ایمان کی حالت میں انتقال کر جائے،تو کلمہ طیبہ اس بندے کے لیے نجات کا ذریعہ بنے گا، اور اسی کلمہ طیبہ اور ایمان کو بنسبت باقی اعمالِ صالحہ کےحدیث میں"رائی کے دانے برابر" الفاظ سے تعبیر کیا گیاہے،یعنی اگر کسی کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان ہو،اور کوئی بھی عمل صالح نہ ہو تو اللہ اپنی عظمت اور کبریائی کی وجہ سے" انشاء اللہ تعالی" اس بندہ کو بخش دیں گے،لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ دنیا میں اعمالِ صالحہ کو ترک کر کے راہِ بد اختیار کیا جائے،اور صرف اللہ تعالی سےامیدیں باندھ کر بیٹھ جائے،کیوں کہ جس بندے کے پاس نیک اعمال نہ ہو تو وہ اس کی سزا بھگتنے کے بعد ہی جنت میں داخل کیا جائے گا۔
ایمان کاسب سے اعلی درجہ و شاخ کلمہ طیبہ ہے،جیساکہ حدیث شریف میں مذکورہے، تواس اعتبار سے "رائی کے دانے کے برابر ایمان کا ہونا " کا اطلاق ایمان کے ستر شاخوں میں سے ایک شاخ پر ہوتا ہے۔
نیز پر ان دعاؤں کا اہتمام کریں:
1 : "أَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ."
2 : "اَللّٰهُمَّ إِنِّيْ أَعُوْذُبِكَ مِنْ هَمَزَاتِ الشَّیَاطِیْنِ وَأَعُوْذُبِكَ رَبِّ أَنْ یَّحْضُرُوْنَ."
3: "اَللّٰهُمَّ اجْعَلْ وَسَاوِسَ قَلْبِيْ خَشْیَتَكَ وَ ذِکْرَكَ، وَاجْعَلْ هِمَّتِيْ وَ هَوَايَ فِیْمَا تُحِبُّ وَ تَرْضٰی."
یعنی اے اللہ! میرے دل کے وساوس کو اپنے خوف اور ذکر سے بدل دیجیے، اور میرے غم اور خواہشات کو ان اعمال میں بدل دیجیے جن میں آپ کی محبت اور رضا ہو۔
تفسیرالخازن میں ہے :
"وإن كان مثقال حبة من خردل أتينا بها معناه أنه لا ينقص من إحسان محسن، ولا يزاد في إساءه مسيء، وأراد بالحبة الجزء اليسير من الخردل، ومعنى أتينا بها يعني أحضرناها لنجازي بها. عن عبد الله بن عمرو ابن العاص أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال «إن الله سيخلص رجلا من أمتي على رؤوس الخلائق يوم القيامة فينشر له تسعة وتسعين سجلا، كل سجل مد البصر، ثم يقول أتنكر من هذا شيئا، أظلمك كتبتي الحافظون، فيقول لا يا رب، فيقول أفلك عذر، فيقول لا يا رب. فيقول الله تعالى بلى إن لك عندنا حسنة فإنه لا ظلم عليك اليوم، فيخرج له بطاقة فيها أشهد أن لا إله إلا الله وأشهد أن محمدا عبده ورسوله، فيقول أحضر وزنك فيقول يا رب ما هذه البطاقة مع هذه السجلات فيقال إنك لا تظلم فتوضع السجلات في كفة والبطاقة في كفة، فطاشت السجلات وثقلت البطاقة ولا يثقل مع اسم الله شيء»."
(سورة الأنبياء، سورة الأنبياء (21): الآيات 44 إلى 57، ج:3 ص:228 ط: دار الکتب العلمیة)
مشکاۃ المصابیح میں ہے:
"وعن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم " الإيمان بضع وسبعون شعبة فأفضلها: قول لا إله إلا الله وأدناها: إماطة الأذى عن الطريق والحياة شعبة من الإيمان."
(كتاب الإيمان، الفصل الأول، ج:1 ص:10 ط: المکتب الإسلامي)
مسند احمد میں ہے:
"حدثنا إبراهيم بن إسحق الطالَقَاني حدثنا ابني مُبَاركْ عن ليث بن سعد حدثني عامر بن يحيى عن أبي عبد الرحمن الحُبُلي، قال: سمعتْ عبد الله بن عمرو بن العاصي يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "إن الله عز وجل يَستَخْلِصُ رجلا من أمتي علىِ رؤوس الخلائق يومَ القيامة، فينشُرُ عليه تسعةً وتسعين سِجِلاً، كل سجلِّ مدُّ البَصَر، ثم يقول له: أتنكر من هذا شيئاً؟، أظَلَمَتْكَ كَتَبتي الحافظون؟، قال: لا، ياربّ، فيقول: ألك عذْرٌ، أو حَسَنة؟، فيُبْهَتُ الرجل، فيقول: لا، ياربّ فيقول: بَلى، إنَّ لك عندنا حسنةً واحدةً، لا ظُلْمَ اليومَ عليك، فتخرج له بطاقة، فيها "أشهد أن لا إله إلا الله، وأن محمداً عبده ورسوله"، فيقول: أحضروه، فيقول: يارب، ما هذه البطاقة مع هذه السجلات؟!، فيقال: إنك لا تظلم، قال: فتوضع السجلات في كفّة، قال: فطاشت السجلات، وثقلت البطاقة، ولا يثقل شىءٌ، بسم الله الرَحمنْ الرحيم."
(أول مسند عبد الله بن عمرو بن العاص رضي الله تعالى عنهما، ج:6 ص:436،437 ط: دار الحدیث)
وایضاً فیہ:
"حدثنا يونس، حدثنا ليث، عن يزيد - يعني ابن الهاد -، عن عمرو، عن (1) أنس قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " إني لأول الناس تنشق الأرض عن جمجمتي يوم القيامة، ولا فخر، وأعطى لواء الحمد، ولا فخر، وأنا سيد الناس يوم القيامة ولا فخر، وأنا أول من يدخل الجنة يوم القيامة، ولا فخر.وإني آتي باب الجنة، فآخذ بحلقتها، فيقولون: من هذا؟ فأقول: أنا محمد. فيفتحون لي، فأدخل، فإذا الجبار مستقبلي، فأسجد له، فيقول: ارفع رأسك يا محمد، وتكلم يسمع منك، وقل يقبل منك، واشفع تشفع. فأرفع رأسي فأقول: أمتي، أمتي يا رب. فيقول: اذهب إلى أمتك، فمن وجدت في قلبه مثقال حبة من شعير من الإيمان، فأدخله الجنة. فأقبل، فمن وجدت في قلبه ذلك، فأدخله (2) الجنة.فإذا الجبار مستقبلي، فأسجد له، فيقول: ارفع رأسك يا محمد، وتكلم يسمع منك، وقل يقبل منك، واشفع تشفع. فأرفع رأسي، فأقول أمتي، أمتي أي رب. فيقول: اذهب إلى أمتك، فمن وجدت في قلبه نصف حبة من شعير من الإيمان، فأدخلهم الجنة. فأذهب، فمن وجدت في قلبه مثقال ذلك، أدخلتهم الجنة.
فإذا الجبار مستقبلي، فأسجد له، فيقول: ارفع رأسك يا محمد، وتكلم يسمع منك، وقل يقبل منك، واشفع تشفع، فأرفع رأسي، فأقول: أمتي، أمتي. فيقول: اذهب إلى أمتك، فمن وجدت في قلبه مثقال حبة من خردل من الإيمان، فأدخله الجنة. فأذهب، فمن وجدت في قلبه مثقال ذلك أدخلتهم الجنة.
وفرغ الله (1) من حساب الناس، وأدخل من بقي من أمتي النار مع أهل النار، فيقول أهل النار: ما أغنى عنكم أنكم كنتم تعبدون الله لا تشركون به شيئا؟! فيقول الجبار: فبعزتي لأعتقنهم من النار. فيرسل إليهم، فيخرجون وقد امتحشوا، فيدخلون في نهر الحياة، فينبتون فيه كما تنبت الحبة في غثاء السيل، ويكتب بين أعينهم: هؤلاء عتقاء الله، فيذهب بهم فيدخلون الجنة، فيقول لهم أهل الجنة: هؤلاء الجهنميون فيقول الجبار: بل هؤلاء عتقاء الجبار ."
(مسند عبد الله بن عمرو بن العاص رضي الله عنهما، حديث أبي رمثة رضي الله عنه عن النبي صلى الله عليه وسلم، ج:19 ص:451،452 ط: مؤسسةالرسالة)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144502102264
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن