بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

وسوسہ کی بیماری والے شخص کی طلاق کا حکم


سوال

نعیم موسوس ہے، دورانِ نماز نعیم کو طلاق کے وساوس آ رہے تھے، اس نے دل میں کہا کہ نعیم کی طلاق کی نیت ہے اور نعیم نے سورہ طلاق کی تلاوت شروع کر دی جب کہ نعیم وسوسے سے ذہن ہٹانا چاہتا تھا اس کی نیت نہ تھی،  کیا شرعی حکم ہے؟

جواب

بیوی پر طلاق واقع ہونے کے لیے طلاق کے الفاظ کا ہونا ضروری ہے، اور ان کی حقیقی یا حکمی  نسبت بیوی کی طرف ہونا ضروری ہے، اگر   زبان سے  طلاق کے الفاظ نہ کہے جائیں یا بیوی کی طرف اس کی نسبت نہ ہو   اور محض دل میں خیال یا وسوسہ آجائے  تو اس سے طلاق واقع نہیں ہوتی۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں نعیم  کی بیوی پر کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی ہے، نکاح بدستور قائم ہے،  وسوسہ اور شک کی طرف دہیان نہیں دینا چاہیے۔

اور درج ذیل آیت کو بکثرت پڑھیں:

 ﴿رَبِّ أَعُوذُ بِكَ مِنْ هَمَزَاتِ الشَّيَاطِينِ ، وَأَعُوذُ بِكَ رَبِّ أَنْ يَحْضُرُونِ﴾( سورہ مومنون ، آیت 97، 98)

  نیز  اللہ کا ذکر  خصوصاً کلمہ طیبہ بکثرت پڑھنے کااہتمام کریں۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4/ 224):

’’قال الليث: الوسوسة حديث النفس، وإنما قيل: موسوس؛ لأنه يحدث بما في ضميره. وعن الليث: لايجوز طلاق الموسوس‘‘.  فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144110201411

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں