بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

وصیت کر کے اس سے رجوع کرنا


سوال

میرے خالو  کا کام ماہی گیری کا تھا، اُن کا انتقال ہو گیا ہے، اُن کی کچھ کشتیاں ہیں، وفات کے بعد ان کے بھائی بہن یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ ان کشتیوں میں ہم بھی حصہ دار ہیں، یاد رہے کہ یہ کشتیاں میرے خالو کی ذاتی ہیں، اپنی محنت سے کما کر حاصل کی ہیں، والد کی وراثت میں نہیں آئیں۔ 

سن 2012 میں جب میرے خالو کا بائی پاس آپریشن ہوا تھا تو انہوں نے وصیت کی تھی کہ  اگر مجھے کچھ ہو جائے تو میرے بہن بھائیوں کو کچھ دے دینا، لیکن آپریشن کے کچھ عرصہ بعد اپنی اس  وصیت  سے  رجوع کر لیا تھا، اور اس رجوع پر گواہ بھی موجود ہیں۔

پوچھنا یہ ہے کہ کیا میرے خالو کے ترکہ (کشتیوں) میں اُن کے بھائی بہن حصہ دار ہوں گے یا نہیں؟ میرے  خالو کے ورثاء میں بیوہ، دو بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں۔

جواب

اگر کوئی شخص اپنی زندگی میں  اپنی  وصیت سے رجوع کرنا چاہتا ہے تو اُس کا ایسا کرنا درست ہے،   اور موصی (وصیت کرنے والے) کے انتقال کی صورت میں موصیٰ لہ (    جس کے لیے وصیت کی گئی تھی   )  اس کا سابقہ وصیت کی بنیاد پرمرحوم کے ترکہ میں کسی قسم کا مطالبہ  کرنا درست نہیں ہوتا۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں  اگر سائل کے خالو نے سن 2012 میں اپنے بھائی بہنوں کے لیے وصیت کی تھی پھر کچھ عرصہ بعد اپنے ہوش وحواس میں  اپنی اس وصیت سے رجوع کر لیا تھا اور اس رجوع پر گواہ بھی موجود ہیں تو وہ رجوع درست ہو گیا تھا، اب سابقہ وصیت کی بنیاد پر  مرحوم کے ترکہ میں اس کے بھائی بہنوں کا کوئی حصہ نہیں۔

باقی مرحوم کی جائیداد کی تقسیم کا طریقہ یہ ہے کہ اولاً مرحوم کے ترکہ میں سے مرحوم کی تجہیز و تکفین کے اخراجات ادا کیے جائیں، پھر  اگر مرحوم کے ذمہ کوئی قرضہ ہو تو اس کو ادا کیا جائے، پھر اگر مرحوم نے مذکورہ وصیت کے علاوہ  کوئی اور  جائز وصیت کی ہو تو اس کو  بقیہ ترکے کے ایک تہائی  حصے میں سے نافذ کیا جائے، اس کے بعد مرحوم کے کل ترکہ کو  8 حصوں میں تقسیم کر کے مرحوم کی بیوہ کو ایک حصہ، ہر ایک بیٹے کو دو حصے اور ہر ایک بیٹی کو ایک حصہ ملے گا۔

صورتِ تقسیم یہ ہے:

میت: 8

بیوہبیٹابیٹابیٹیبیٹیبیٹی
122111

یعنی فیصد کے حساب سے 12.5 فیصد مرحوم کی بیوہ کو، 25 فیصد ہر ایک بیٹے کو اور 12.5 فیصد ہر ایک بیٹی کو ملے گا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(وله) أي للموصى (الرجوع عنها بقول صريح)

(قوله: و له الرجوع عنها)؛ لأن تمامها بموت الموصي، و لأن القبول يتوقف على الموت و الإيجاب المفرد يجوز إبطاله في المعاوضات كالبيع، ففي التبرع أولى عناية."

(کتاب الوصایا، 6/658/ سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144304101002

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں