بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

وصیت کے احکام


سوال

مرحوم اگر وصیت کر کے چلے جائیں تو اس کی قرآن و سنت کی روشنی میں  کیا حیثیت ہے؟ اور اولاد کے بارے میں کیا احکامات ہیں؟

جواب

وصیت کے مندرجہ ذیل احکام ہیں:

1) ہر شخص کو اپنے مال کے ایک ثلث میں وارثوں کے علاوہ کے لیے جائز وصیت کرنے کا اختیار ہے، اور ورثا پر اس وصیت کے مطابق عمل واجب ہے۔

2) البتہ اگر میت پر قرض ہو تو پہلے اس کی ادائیگی کی جائے گی، خواہ اس میں پورا ترکہ صرف ہوجائے، اس کی ادائیگی کے بعد اس وصیت پر عمل کیا جائے گا۔

3)  ایک تہائی سے زیادہ کی وصیت میں تہائی میں عمل کرنا ضروری ہے اور باقی ورثاء کے درمیان تقسیم ہوگا، البتہ اگر ورثاء تہائی سے زیادہ میں بھی مرحوم کی وصیت کے مطابق  عمل کرنا چاہیں تو بالغ ورثاءکو اختیار ہے۔

4) ورثاء کے لیے وصیت کرنے کی صورت میں وہ وصیت غیر معتبر ہوگی اور مال ورثاء میں شرعی حصوں کے مطابق تقسیم ہوگا، البتہ اگر بالغ ورثاء راضی ہوں کہ مرحوم کی وصیت پر مذکورہ وارث کے حق میں عمل کریں تو ان کو اختیار ہے۔ 

5) ورثاء میں اگر نابالغ بھی ہوں اور وصیت ایک تہائی سے زائد ہو یا کسی وارث کے حق میں ہو، اور بالغ ورثاء اسے نافذ کرنے پر راضی ہوں تو ایک تہائی سے زائد وصیت صرف بالغ ورثاء کے حصے میں سے نافذ ہوگی۔  

باقی جس خاص مسئلے سے متعلق سوال کرنا ہو، اسے متعین کرکے سوال کرلیجیے، ان شاء اللہ تعالیٰ جواب جاری کردیا جائے گا۔

الفتاوى الهندية میں ہے:

"ثم تصح الوصية لأجنبي من غير إجازة الورثة، كذا في التبيين. ولاتجوز بما زاد على الثلث إلا أن يجيزه الورثة بعد موته وهم كبار ولا معتبر بإجازتهم في حال حياته، كذا في الهداية ... ولا تجوز الوصية للوارث عندنا إلا أن يجيزها الورثة."

(کتاب الوصایا ج نمبر ۶ ص نمبر ۹۰،دار الفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144203201415

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں