بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

وصیت لکھنے کا حکم


سوال

میں اپنی وصیت میں کیا کیا لکھ سکتا ہوں؟

جواب

ہر  انسان کا دنیا میں رہتے ہوئے مختلف لوگوں سے واسطہ رہتاہے، کسی سے کچھ لینا یا کسی کو  کچھ  دینا حقوقِ واجبہ ہوتے ہیں، بسااوقات قرض لیے جاتے ہیں، کبھی دوسروں کو قرض دیا جاتاہے، لوگوں کی امانتیں کسی کے پاس رکھی ہوتی ہیں، اور انسان کو اپنی موت کا کچھ علم نہیں کہ کس وقت آجائے۔اس لیے افضل یہ ہے کہ وصیت لکھی ہوئی ہر وقت تیار رہے،اور آدمی پر جس جس کا جو حق، یاقرضہ یا امانتیں ہیں یا دینی فرائض اور واجبات میں سے ادائیگی باقی ہے ان تمام کو کسی کاغذ پر لکھ کر وصیت تیار رکھے، تاکہ اگر اچانک موت آجائے تو وارثین ان تمام چیزوں کو اداکرسکیں اور درست انتظامات کرسکیں۔ بخاری شریف میں حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:

’’کسی مسلمان کے پاس کوئی بھی چیز ہو جس کی وصیت کرناہوتواس کے لیے یہ بات ٹھیک نہیں ہے کہ دوراتیں گزرجائیں اور اس کی وصیت ا س کے پاس لکھی ہوئی نہ ہو‘‘ (1/382)

نیز سنن ابن ماجہ کی حدیث میں رسول اللہ ﷺسے منقول ہے کہ :

’’جس شخص کو وصیت پر موت آئی (یعنی وصیت کرکے دنیاسے گیا)وہ صحیح راستے پر اور سنت پر مرا‘‘۔ (ص:194)

البتہ اگر سوال سے آپ کا مقصود اپنی وراثت کے بارے میں وصیت کرناہے،تو یاد رہے کہ وارث کے حق میں وصیت کا شرعاً اعتبار نہیں ہوتا؛ لہٰذا میت نے اگر اپنے وارث کے لیے وصیت کی ہے تو وارثین پر اس کی تعمیل ضروری نہیں،  بلکہ سارا ترکہ ورثاء کے درمیان ان کے شرعی حصوں کے مطابق تقسیم ہوگا،البتہ اگر ورثاء میں سے جو عاقل، بالغ ہوں اوربخوشی  اس وصیت کے نفاذ پر راضی ہوں تو  ان کے حصے میں سے یہ وصیت نافذ ہوسکتی ہے۔

اوراگر وصیت کا تعلق غیر وارث سے ہے تو اُس کا نفاذ صرف  ایک تہائی مال میں ہوتا ہے۔البتہ اگر دیگر وارثین کو کوئی اعتراض نہ ہو تو تہائی سے زیادہ میں بھی اُس کی وصیت نافذ ہوجائے گی۔

نیز یہ بھی ملحوظ رہے کہ ناجائز کاموں کی وصیت شرعاً درست نہیں ہے، مثلاً: مرنے کے بعد غیر شرعی رسومات کے حوالے سے وصیت ہو، یا مثلاً: یوں کہے: میری موت پر فلاں فلاں رشتہ دار کو نہ آنے دینا یا ان سے تعلق قطع رکھنا، وغیرہ وغیرہ۔ نیز ناجائز کاموں میں پیسہ صرف کرنے کی وصیت بھی شرعاً درست نہیں ہے، گو وہ ترکے کے ایک تہائی کے اندر اندر کیوں نہ ہو۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144111200896

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں