بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

وصیت کل ترکہ کے ایک تہائی میں نافذ ہوتی ہے


سوال

ایک شخص کا انتقال ہوا ، مرحوم نے تقریباً آٹھ سال نمازیں نہیں پڑھی ہیں ، مرحوم نے اپنے بیٹوں کو وصیت کی ہے کہ میری جو زمین ہے،  اس کو فروخت کرکے جو رقم اس سے حاصل ہو ، اس کو میری قضا نمازوں کے   فدیہ میں  دے دینا۔

سوال یہ ہے کہ :

1۔ مرحوم کے بیٹوں پر مذکورہ زمین کو فوراً فروخت کرکے اس کی رقم فدیہ میں دینا لازم ہے یا تاخیر کرسکتے ہیں ؟

 2۔فدیہ چونکہ زیادہ ہے ، اس کی ادائیگی فی الفور لازم ہے یا تاخیر کی جاسکتی ہے ؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں مرحوم نے اپنے بیٹوں کو اپنی قضا شدہ نمازوں کے متعلق جو وصیت کی ہے ، وہ مرحوم کے کل ترکہ کے ایک تہائی میں نافذ ہوگی یعنی ورثاء پر  مرحوم کے ترکہ   میں سے  ایک تہائی کے بقدر مال فدیہ میں دینا لازم ہے ، اس سے زیادہ دینا لازم نہیں ہے ، نیز اس کے لیے  زمین کو فروخت کرنا بھی  لازم نہیں ہے ، بلکہ مارکیٹ ویلیو کے حساب سے  اس کی مالیت لگوا کر اس کی قیمت کو دیگر ترکہ کے ساتھ شامل کرکے کل مال کا   ایک تہائی  حصہ فدیہ میں دینا لازم ہے ، اس سے زیادہ دینا لازم نہیں ہے ، البتہ اگر کوئی وارث اپنی طرف سے دینا چاہے تو وہ اس کی طرف سے مرحوم پر احسان ہوگا ۔

لہذا جس زمین کے بارے میں وصیت کی ہے ، اگر وہ کل ترکہ کا ایک تہائی یا اس سے کم ہے تو مرحوم کی وصیت کے مطابق عمل کرنا ضروری ہے ۔اگر مرحوم کے ترکہ میں اتنی نقد رقم نہ ہو  جو اس زمین کی مالیت کے برابر ہو تو   جس قدر جلدی ہوسكے ، مرحوم كي وصيت پر عمل كرتے ہوئے مرحوم كے تركہ كی  تقسيم سے پہلے تركہ كے ايك تہائی سے فدیہ   ادا کردیا جائے ، تاكه ورثاء اپنے ذمہ  سے عہدہ   بر آ ہو جائيں  اور مرحوم آخرت کے مواخذہ سے محفوظ رہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(ولو مات وعليه صلوات فائتة وأوصى بالكفارة يعطى لكل صلاة نصف صاع من بر) كالفطرة(وكذا حكم الوتر) والصوم، وإنما يعطي (من ثلث ماله)۔"

(باب قضاء الفوائت : 2 /73 ، ط : سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"إذا مات الرجل وعليه صلوات فائتة فأوصى بأن تعطى كفارة صلواته يعطى لكل صلاة نصف صاع من بر وللوتر نصف صاع ولصوم يوم نصف صاع من ثلث مالهو في فتاوى الحجة وإن لم يوص لورثته وتبرع بعض الورثة يجوز ويدفع عن كل صلاة نصف صاع حنطة منوين، ولو دفع جملة إلى فقير واحد، جاز۔"

(الباب الحادي عشر في قضاء الفوائت : 1 / 125 ، ط : دار الفكر)

فقط و اللہ اعلم


فتوی نمبر : 144305100412

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں