بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

وصیت کے نفاذ میں بعض ورثاء کا راضی ہونا اور بعض کا نہیں


سوال

ہم تین بھائی اور دو بہنیں ہیں ،میرے والد صاحب نے اپنی زندگی میں جو معاملات تھے وہ سب بہن بھائی میں اس طرح تقسیم کیے تھےکہ ایک پلاٹ بڑے بھائی کو دیا تھا ،وہ ان کے نام بھی تھا اور بڑے بھائی اس میں رہائش پذیر بھی تھے،ایک اور پلاٹ جو کمپنی کے نام تھا وہ بھی ان کے نام کرنے کو کہا تھا ،لیکن وہ ابھی کمپنی کے نام ہے،ایک پلاٹ ایک بیٹی کے نام کرنے کو کہا تھا،لیکن وہ ان کے نام ٹرانسفر نہیں ہوا تھا ،ایک پلاٹ چھوٹی صاحب زادی کے نام کیا تھا ،مگر وہ بھی ٹراسفر نہیں ہوا تھا،ایک مکان جس کے گراؤنڈ فلور میں خود رہائش پذیر تھے  اس کا بالائی حصہ اپنے منجھلے بٹے کے نام کیا ،ایک پلاٹ اس کے بارے میں کہا تھا کہ یہ چھوٹے اور منجھلے بیٹے کے نام کر دیا جائے،لیکن نام پر ٹرانسفر نہیں ہوا تھا ،دو عدد آفس ایک والدہ کے نام دوسرا کمپنی کے نام پر تھی اس کا کرایہ والدہ کو دیا جائے ،ایک اور پلاٹ جس پر ابھی آفس ہےاس کے بارے میں کہا تھا کہ  وہ جگہ مستقبل میں منجھلے اور چھوٹے بھائی کو دی جائے ۔

میرے والد صاحب کے انتقال کے بعد یہ ساری پراپرٹیاں ان کی ہدایت کے مطابق تقسیم ہو گئی۔

میری والدہ نے بھی ایک تحریر لکھی تھی ،جس میں لکھا تھا،کہ میری والدہ کا جو ورثہ مجھے ملے گا وہ دونوں میری بیٹیوں کو دیا جائے گا ،ابھی ان کا انتقال ہو گیا ہے،جو ورثہ ان کی زندگی میں ان کو ملا وہ اس کی مالک تھی ،ان کے انتقال کے بعد وہ ہم دونوں کو ملنا شروع ہو گیا ،والدہ کی  وصیت پر ہم دونوں بہنیں ،والدہ ،منجھلے بھائی کے گواہ کے طور پر دستخط ہیں ،سب بہن بھائیوں کو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے،اس پر معاملات ہو گئے ،جب والدہ کی وراثت ملنا شروع ہو گئی تو منجھلے بھائی کو اعتراض ہوا ،اور انہوں نے اس میں اپنا حق لیا ،جبکہ والدہ کی وصیت پر ان کے دستخط بھی ہیں ۔

سوال یہ ہے کہ والد نے جو تقسیم کی ہدایت کی وہ صحیح ہے یا نہیں ،جب کہ والد صاحب نے کسی کو زیادہ اور کسی کو کم دیا ؟

اب جب والد کی وراثت بھی ان کی تحریر کے مطابق تقسیم ہوئی اسی طرح والدہ نے بھی تحریر لکھی ہے تو اس ان کی تحریر کے مطابق تقسیم نہیں کرنا کیسا ہے؟

جواب

واضح رہے کہ وارث کے لیے کی گئی وصیت شرعاً معتبر نہیں ہوتی،البتہ اگر تمام ورثاء عاقل بالغ ہوں اور اس پر عمل کرنے پر راضی ہوں تو اس وصیت پر عمل کر سکتے ہیں ،اور اگر بعض ورثاءراضی ہوں اور بعض راضی نہ ہوں تو جو راضی ہیں ان کے حصہ کے بقدر وصیت پر عمل کیا جائے گا ،بقیہ کے حصہ کے بقدروصیت نافذ نہیں ہو گی ۔

لہذا صورت مسئولہ میں سائلہ کے والد کی وصیت شرعاً ورثاء کی رضامندی پر موقوف تھی ،جب تمام ورثاء نے اس پر رضامندی کا اظہار کر دیا اور ان کی وصیت کے مطابق ان کا مال و متاع تقسیم کر دیا تو  شرعا ً ان کی وصیت کا نفاذ ہو گیا ،جہاں تک والدہ کی وصیت کی بات ہے وہ بھی شرعاً ورثاء کی اجازت پر موقوف ہے ،پس  اگر ایک بھائی کے علاوہ تمام ورثاء راضی ہوں  تو ان کے حصہ بقدر وصیت نافذ ہو جائے گی اور ان کا حصہ سائلہ اور اس کی بہن کو ملے گا اور جس بھائی نے رضامندی کا اظہار نہیں کیا  تو اس کے حصہ کے بقدر وصیت نافذ نہیں ہو گی،اور وہ اپنے حصہ کا حق دار ہو گا۔

فتاوی عالمگیریہ میں ہے:

"ولو أجاز البعض ورد البعض يجوز على المجيز بقدر حصته وبطل في حق غيره، كذا في الكافي وفي كل موضع يحتاج إلى الإجازة إنما يجوز إذا كان المجيز من أهل الإجازة نحو ما إذا أجازه وهو بالغ عاقل صحيح، كذا في خزانة المفتين"

(کتاب الوصایا ،ج:6،ص:91،ط:رشیدیہ)

تنویر الابصار  میں ہے:

"وشرائطها كون الموصي اهلاّ للتمليك وعدم استغراقه بالدين والموصي له حياّ وقتها وغير وارث ولا قاتل"

(رد المحتار ،کتاب الوصایا ،ج:6،ص:649،ط:سعید)

مبسوط للسرخسی میں ہے:

"(قال - رحمه الله -) قد بينا أن الوصية للوارث لا تجوز بدون إجازة الورثة لقوله - عليه السلام -: لا ‌وصية ‌لوارث إلى أن يجيزه الورثة۔"

(کتاب الوصایا ،ج:27،ص:175،ط:دار المعرفۃ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307102157

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں