بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 شعبان 1446ھ 06 فروری 2025 ء

دارالافتاء

 

وصی کا ترکہ کا مال نکلوانے کے لیے خرچ کردہ رقم کا حکم اور بطور کمیشن اسی ترکہ کے مال میں سے اجرت لینے کا حکم


سوال

1۔میری ساس کا انتقال ہوچکا ہے،میری ساس نے مجھے اور اپنی بیٹی یعنی میری بیوی کو مرنے سے  چند منٹ پہلے کہا کہ سارے بینکوں اور جائیداد سے پیسے نکال کر میرے دو بیٹے اور دو بیٹیوں میں شرعی حساب سے تقسیم کردینا،میں نے بینک سے تین کروڑ پانچ لاکھ روپے (3,05,00,000) چھ ماہ بعد نکلوائے،ان پیسوں کو نکلوانے کے لیے مجھے وکیل کرنا پڑا،اور اس کی فیس بھرنے کے لیے چھ لاکھ کی ضرورت تھی ،میں نے مرحومہ ساس کے بیٹوں سے اس بارے میں کہا تو انہوں نے پیسے دینے سے انکار کیا ،پھر میں نے ایک دوست سے چھ لاکھ اس شرط پر ادھار لیے کہ اسے ایک ماہ میں واپس کردوں گا ،اگر نہ کرسکا تو ہر ماہ ایک متعین رقم (18000)روپےبڑھتی چلی جائے گی،لیکن ایک ماہ کے اندر میں قرضہ ادا نہ کرسکا،جس کی وجہ سے اس رقم پر سود چڑھتا گیااور وہ چڑھتے چڑھتےسود سمیت  قرضہ کی ٹوٹل رقم دس لاکھ اڑسٹھ ہزار (10,68,000)روپے ہوگئی تھی،پھر یہ قرضہ 26ماہ بعد میں نے کسی اور سے قرضہ لے کر اسے ادا کیا، یہ تمام باتیں ورثاء کے علم میں تھی،اب مجھے یہ ٹوٹل رقم واپس ملے گی یا نہیں؟

2۔دوسری بات یہ کہ میں نے اپنے سالوں سے کہا تھا کہ بینک سے جتنے پیسے نکلیں گے اس کا دس فیصد میں بطور کمیشن کے لوں گا،اور وہ تیس لاکھ پچاس ہزار (30,50,000)روپے بن رہے تھے ،جس وقت میں نے کمیشن کا مطالبہ کیا تھا،اس وقت دونوں سالے اور میری بیوی موجود تھیں،سب اس پر رضامند تھے،البتہ میری بیوی کی بڑی بہن امریکہ میں تھی،انہیں فون کر کے اطلاع دی گئی توانہوں نے  بھی اس پر رضامندی ظاہر کی تھی،اب میرے سالوں نے یہ ساری رقم بینک میں رکھی ہوئی ہے،اور پچھلے 30 ماہ سے اس پر انٹرسٹ کھارہے ہیں،اس طرح میری ٹوٹل رقم انٹرسٹ سمیت ساٹھ لاکھ چھیاسٹھ ہزار روپے(60,66,000) بنتے ہیں،اور میرے سالے مجھے یہ رقم نہیں دے رہے ہیں ،میرا سوال یہ ہے کہ  اس مذکورہ ٹوٹل رقم پر میرا حق بنتا ہے یا نہیں؟

جواب

1۔واضح رہے کہ سودی قرضہ  لینا اور دینا دونوں قرآن و حدیث کی قطعی نصوص سے حرام ہیں، حدیثِ مبارک میں  سودی لین دین کرنے والوں پر لعنت کی  گئی ہے،چنانچہ حدیث میں آتا ہےکہ :" رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سود کھانے والے، سود کھلانے والے، اور سود کے معاملے کو لکھنے والے اور اس میں گواہ بننے والے پر لعنت فرمائی  اور فرمایا: یہ سب گناہ میں برابر ہیں۔"

لہذ ا صورتِ مسئولہ  میں جب سائل کے  سالوں نے  بینک سے رقم نکالنے پر آنے والے اخراجات  دینے سے انکا ر کیا تو سائل پر شرعًا یہ لازم نہیں تھا کہ وہ سود پر قرضہ لے کر مذکورہ کام  انجام دیتا،بہر حال جب سائل نے قرضہ لے کر یہ کام سر انجام دے دیا تھا،تو اب سائل ورثاء سے صرف چھ لاکھ روپے لینے کا حق دار ہے،کیوں کہ اتنی ہی رقم بینک سے پیسے نکالنے پر خرچ ہوئی ہے،ار اس سے زیادہ کا سائل ورثاء سے مطالبہ نہیں کرسکتا،البتہ سائل قرض خواہ سے بطور سودادا کیے گئے  اپنی رقم کا مطالبہ کرسکتا ہے ،اور  سائل کے دوست پر لازم ہے کہ وہ وصول کردہ سودی  رقم سائل کو واپس کرے۔

2۔مذکورہ صورت میں سائل کا ساس کے تمام ورثاءسے پیسے نکالنے کے لیے بھاگ ڈور کے سلسلے میں اپنے لیےاسی رقم میں ہی بطورِ  کمیشن 10 فیصد اجرت کے طور پر  مقرر کرنا جائز نہیں تھا،  لہذا اب  سائل صرف اجرتِ مثل کا حق دارہے ،یعنی  اس طرح کے کاموں میں بطورِ کمیشن عمومی طور پر جو پیسے لیے جاتے ہیں،صرف انہی پیسوں کاوہ حق دار ہوگا۔

1۔مشکاہ المصابیح میں ہے:

"عن جابر رضي الله عنه قال: ‌لعن ‌رسول ‌الله صلى الله عليه وسلم أكل الربا وموكله وكاتبه وشاهديه وقال: هم سواء . رواه مسلم."

(كتاب البيوع، باب الربا، الفصل الأول، ج: 2، ص: 855، رقم:2807، ط: المكتب الإسلامي )

فتاوی شامی میں ہے:

"والحاصل أنه إن علم أرباب الأموال وجب رده عليهم، وإلا فإن علم عين الحرام لا يحل له ويتصدق به بنية صاحبه"

(کتاب البیوع،باب البيع الفاسد،ج:5،ص:99،ط:سعید)

2۔تبیین الحقائق مع حاشیۃ شبلی میں ہے:

"قال - رحمه الله - (ولو دفع غزلا لينسجه بنصفه أو استأجره ليحمل طعامه بقفيز منه أو ليخبز له كذا اليوم بدرهم لم يجز)؛ لأنه في الأولى والثانية جعل الأجر بعض ما يخرج من عمله فيصير في معنى قفيز الطحان، وقد نهي عنه - عليه الصلاة والسلام - وهو أن يستأجر ثورا ليطحن له حنطة بقفيز من دقيقه فصار هذا أصلا يعرف به فساد جنسه، والمعنى فيه أن المستأجر عاجز عن تسليم الأجر لأنه بعض ما يخرج من عمل الأجير، والقدرة على التسليم شرط لصحة العقد وهو لا يقدر بنفسه، وإنما يقدر بغيره فلا يعد قادرا ففسد،(قوله فصار هذا أصلا يعرف به إلخ) قال في الهداية، وهذا أصل كبير يعرف به فساد كثير من الإجارات قال الأتقاني أي جعل الأجر بعض ما يخرج من عمل الأجير أصل عظيم يعرف به حكم كثير من الإجارات كما إذا استأجره ليعصر له قفيز سمسم بمن من دهنه، وكذلك إذا دفع أرضه ليغرس شجرا على أن يكون الأرض والشجر بينهما نصفين لم يجز والشجر لرب الأرض وعليه قيمة الشجر وأجر ما عمل كذا في الشامل، وكذا إذا استأجره ليغزل هذا القطن أو هذا الصوف برطل من غزله، وعلى هذا اجتناء القطن بالنصف ودياس الدخن بالنصف وحصاد الحنطة بالنصف ونحو ذلك كله لا يجوز."

(کتاب الإجارة، ج:5، ص:130، ط:دار الكتاب الإسلامي)

المحیط البرہانی میں ہے:

"وجميع ما كان فاسداً من ذلك إذا باع واشترى فله أجر المثل لا يجاوز به المسمى، كما في سائر الإجارات الفاسدة، ويطيب له ذلك؛ لأنه بدل عمله فيطيب له كما تطيب قيمة المبيع للبائع في البيع الفاسد عند عجز المشتري عن رد العين؛ لأنه بدل ملكه، لكن يأثم بمباشرته هذا العقد؛ لأنه معصية."

(کتاب الاجارات،الفصل الخامس عشر: في بيان ما يجوز من الإجارات، وما لا يجوز،ج:7،ص:467،ط:دار الكتب العلمية، بيروت - لبنان)

فقط واللہ علم


فتوی نمبر : 144601100737

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں