بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 ذو الحجة 1446ھ 13 جون 2025 ء

دارالافتاء

 

وصیت میں تاخیر کا حکم


سوال

میرے بھائی مرحوم نے میرے پاس ایک بڑی رقم امانت رکھوائی تھی، اور مجھے یہ وصیت بھی کی تھی کہ میرے مرنے کے بعد اس میں سے ایک تہائی مال صدقہ کر دینا اب بھائی کے دنیا سے جانے کے بعد شریعت کا میرے لیے کیا حکم ہے، میں ان کی وصیت کے مطابق ایک تہائی مال صدقہ کر دوں یا  سارا مال ان کے ورثاء کے درمیان تقسیم کر دوں؟کیوں کہ ورثاء میں سے بعض چاہتے ہیں کہ ابھی سارا مال ورثاء میں تقسیم ہو جائے بعد میں ہم کما کما کر تھوڑا تھوڑا کر کے وصیت والی رقم ادا کر دیں گے۔شریعت کی رو سے کیا ہمیں ایسا کرنے کی اجازت ہے؟ یا مرحوم کے ترکہ والی رقم میں سے ہی وصیت پوری کرنی ضروری ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں سائل کے مرحوم بھائی نے جوکچھ رقم وغیرہ چھوڑی ہے وہ سب مرحوم کا ترکہ ہے،اور ترکہ میں سب سے پہلے مرحوم کے تجہیز و تکفین( یعنی کفن ، دفن ) کا خرچ (اگر کسی نے بطورِ قرض کیا ہو تو وہ) نکالے جاتے ہیں، اس کے بعد اگر مرحوم نے کسی کا قرض دینا ہوتو وہ اداکیا جاتا ہے ،اس کے بعد مرحوم نے جو ایک تہائی مال کی وصیت کی ہے  بقیہ مال کے  ایک تہائی میں   اس وصیت کو نافذ کیا جائے گا،اس کے بعدبقیہ ترکہ میں  ورثاء کا حق ہو گا کہ بقیہ ترکہ کو آپس میں شرعی حصوں کے مطابق تقسیم کریں،لہذا سائل اور مرحوم کے ورثاء کو چاہیے کہ مرحوم کی وصیت کے مطابق ترکہ کے ایک تہائی مال کو کسی صدقہ جاریہ کے کام میں لگا دیں تاکہ مرحوم کی روح کو اس کا ثواب پہونچنے لگ جائے۔

 وصیت چونکہ مرحوم کے ترکہ میں ہی نافذ العمل ہوتی ہے، اس لیے اسی ترکہ کی رقم سے وصیت پر عمل کیا جائے گا، ترکہ کی رقم کو کسی کام وغیرہ میں لگا کر اس کی آمدن سے وصیت نافذ کرنےمیں وصیت کے نفاذ میں تاخیر ہے، اور یہ تاخیر شرعاً معتبر نہیں، لہذا اس وجہ سے وصیت کو مؤخر کرنا درست نہیں، ورثاء کو چاہیے کہ پہلے وصیت پر عمل کریں اس کے بعد بقیہ ترکہ کو شرعی حصوں کے مطابق تقسیم کریں، کیوں کہ ورثاء کا حق وصیت کے بعد ہی ہوتا ہے۔

الفقہ الاسلامی و ادلتہ میں ہے:

"تنفيذ وصاياه: تنفذ الوصايا من ثلث المال الباقي لامن ثلث أصل المال بعد أداء ‌الحقوق ‌المتقدمة، لقوله تعالى: {من بعد وصية يوصى بها أو دين} [النساء:11/ 4]؛ لأن ما تقدم قد صرف في ضروراته التي لا بد منها، فالباقي هو مال الميت الذي أجاز له الشرع أن يتصرف في ثلثه، ولا تنفذ وصاياه فيما زاد عليه إلا بإجازة الورثة، سواء أكان الموصى له أجنبياً أم وارثاً؛ فإن أجازوا نفذت، وإن أجاز بعضهم دون بعض، نفذت في مقدار حصة المجيز دون غيره. كما لاتنفذ الوصية لوارث مطلقاً إلا بإجازة الورثة، سواء أكانت أقل من الثلث أم أكثر."

(الباب السادس: الميراث، الفصل السادس: الحقوق المتعلقة بتركة الميت،ج: 10،ص: 7733، ط: دار الفكر)

بدائع الصنائع میں ہے:

"فإن قال الموصي أحجوا عنى بثلث مالي، وثلث ماله يبلغ حججا حج عنه حججا كذا روى القدوري في شرحه مختصر الكرخي ......ثم الوصي بالخيار إن شاء أحج عنه الحجج في سنة واحدة، وإن شاء أحج عنه في كل سنة واحدة، والأفضل أن يكون في سنة واحدة؛ لأن فيه تعجيل تنفيذ الوصية، والتعجيل في هذا أفضل من التأخير."

(کتاب الحج ،فصل فی سبب وجوب الحج،ج: 2، ص: 223، دار الکتب العلمية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144611100368

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں