بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

وسیلہ کے متعلق امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی طرف منسوب شبہات کا جواب


سوال

کیا امام ابو حنیفہ وسیلہ کے خلاف تھے کہا جاتا ہے کہ امام ابو حنیفہ نے منع کیا کہ کوئی دعا میں یہ کہے اللہ تعالیٰ سے کہ "بحق فلان" ۔

براہِ کرم شرعی طورپر راہ نمائی کریں؟

جواب

امام ابوحنیفہ اور صاحبین رحمھم اللہ نے "بحق رسلك وأنبيائك وأوليائك و حق فلان"سے دعا مانگنے کو مکروہ کہا ہے،یعنی اللہ سے اس طرح دعا مانگنا کہ" فلاں کا جو آپ پر حق ہے اس کے بدلے میرا یہ کام کردے" اس کو مکروہ کہا ہے،کیوں کہ اللہ تعالی پر کسی کا حق لازم اور واجب نہیں ہے،اللہ کی طرف سے جو بھی عطاء ہوتی ہے وہ اللہ کا فضل اور مہربانی ہے،اور اعمال کے بدلے اللہ پر حق کو لازم ٹھہرانا یہ معتزلہ کا عقیدہ ہے،اس وجہ سے ائمہ ثلاثہ نے مذکورہ طریقہ پر دعا مانگنے کو مکروہ کہا ہے۔

اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ امام صاحب نے وسیلہ کے ساتھ دعا مانگنے کے خلاف تھے،اور اس بات کو لے کر  وسیلہ کےساتھ دعا مانگنے کو عدم جواز کو امام صاحب کی طرف منسوب کرنا غلط ہے،کیوں کہ " حق" اور " وسیلہ " دونوں ایک نہیں ہیں۔

فتاوی شامی میں ہے:

(و) كره قوله (بحق رسلك وأنبيائك وأوليائك) أو بحق البيت لأنه لا حق للخلق على الخالق تعالى ولو قال لآخر بحق الله أو بالله أن تفعل كذا لا يلزمه ذلك وإن كان الأولى فعله درر۔

(قوله لأنه لا حق للخلق على الخالق) قد يقال إنه لا حق لهم وجوبا على الله تعالى، لكن الله سبحانه وتعالى جعل لهم حقا من فضله أو يراد بالحق الحرمة والعظمة، فيكون من باب الوسيلة وقد قال تعالى: - {وابتغوا إليه الوسيلة} [المائدة: 35]-: وقد عد من آداب الدعاء التوسل على ما في الحصن، وجاء في رواية: «اللهم إني أسألك بحق السائلين عليك، وبحق ممشاي إليك، فإني لم أخرج أشرا ولا بطرا» الحديث اهـ ط عن شرح النقاية لمنلا علي القاري ويحتمل أن يراد بحقهم علينا من وجوب الإيمان بهم وتعظيمهم، وفي اليعقوبية يحتمل أن يكون الحق مصدرا لا صفة مشبهة فالمعنى بحقية رسلك فلا منع فليتأمل اهـ أي المعنى بكونهم حقا لا بكونهم مستحقين."

(كتاب الحظر و الإباحة، ج: 6، ص: 397، ط: سعيد)

شرح العقیدۃ الطحاویۃ میں ہے:

"وأما الاستشفاع بالنبي صلى الله عليه وسلم وغيره في الدنيا إلى الله تعالى في الدعاء، ففيه تفصيل: فإن الداعي تارة يقول: بحق نبيك أو بحق فلان، يقسم على الله بأحد من مخلوقاته، فهذا محذور من وجهين: أحدهما: أنه أقسم بغير الله. والثاني: اعتقاده أن لأحد على الله حقا. ولا يجوز الحلف بغير الله، وليس لأحد على الله حق إلا ما أحقه على نفسه، كقوله تعالى: {وكان حقا علينا نصر المؤمنين} [الروم: 47]  وكذلك ما ثبت في ((الصحيحين)) من قوله صلى الله عليه وسلم لمعاذ رضي الله عنه، وهو رديفه: «يا معاذ، أتدري ما حق الله على عباده؟ قلت: الله ورسوله أعلم، قال حقه عليهم أن يعبدوه ولا يشركوا به شيئا، أتدري ما حق العباد على الله إذا فعلوا ذلك؟ قلت: الله ورسوله أعلم، قال: حقهم عليه أن لا يعذبهم» . فهذا حق وجب بكلماته التامة ووعده الصادق، لا أن العبد نفسه مستحق على الله شيئا كما يكون للمخلوق على المخلوق، فإن الله هو المنعم على العباد بكل خير، وحقهم الواجب بوعده هو أن لا يعذبهم، وترك تعذيبهم معنى لا يصلح أن يقسم به، ولا أن يسأل بسببه ويتوسل به، لأن السبب هو ما نصبه الله سببا. وكذلك الحديث الذي في المسند من حديث أبي سعيد عن النبي صلى الله عليه وسلم، في قول الماشي إلى الصلاة: «أسألك بحق ممشاي هذا، وبحق السائلين عليك» ، فهذا حق السائلين، هو أوجبه على نفسه، فهو الذي أحق للسائلين أن يجيبهم، وللعابدين أن يثيبهم، ولقد أحسن القائل:

. فإن قيل: فأي فرق بين قول الداعي: ((بحق السائلين عليك)) وبين قوله: ((بحق نبيك)) أو نحو ذلك؟ فالجواب: أن معنى قوله: بحق السائلين عليك أنك وعدت السائلين بالإجابة، وأنا من جملة السائلين، فأجب دعائي، بخلاف قوله: بحق فلان - فإن فلانا وإن كان له حق على الله بوعده الصادق - فلا مناسبة بين ذلك وبين إجابة دعاء هذا السائل. فكأنه يقول: لكون فلان من عبادك الصالحين أجب دعائي! وأي مناسبة في هذا وأي ملازمة؟ وإنما هذا من الاعتداء في الدعاء! وقد قال تعالى: {ادعوا ربكم تضرعا وخفية إنه لا يحب المعتدين} [الأعراف: 55] (الأعراف: 55) . وهذا ونحوه من الأدعية المبتدعة، ولم ينقل عن النبي صلى الله عليه وسلم، ولا عن الصحابة، ولا عن التابعين، ولا عن أحد من الأئمة رضي الله عنهم، وإنما يوجد مثل هذا في الحروز والهياكل التي يكتب بها الجهال والطرقية. والدعاء من أفضل العبادات، والعبادات مبناها على السنة والاتباع، لا على الهوى والابتداع.

وإن كان مراده الإقسام على الله، فذلك محذور أيضا، لأن الإقسام بالمخلوق على المخلوق لا يجوز، فكيف على الخالق؟ ! وقد قال صلى الله عليه وسلم: «من حلف بغير الله فقد أشرك» .ولهذا قال أبو حنيفة وصاحباه رضي الله عنهم: يكره أن يقول الداعي: أسألك بحق فلان، أو بحق أنبيائك ورسلك، وبحق البيت الحرام، والمشعر الحرام، ونحو ذلك حتى كره أبو حنيفة ومحمد رضي الله عنهما أن يقول الرجل: اللهم إني أسألك بمعقد العز من عرشك، ولم يكرهه أبو يوسف رحمه الله لما بلغه الأثر فيه."

(شرح العقيدة الطحاوية،ج: 1، ص: 297، ط: مؤسسة الرسالة)

فتاوی محمودیہ میں ہے:

"سوال: ایک صاحب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل سے دعا مانگنے میں قطعی متفق نہیں.....اُن کا کہنا ہے کہ جو کچھ طلب کرنا ہے بس خدا سے طلب کریں،حتی کہ جوتے کا تسمہ وغیرہ ۔خیر اس سے انکار نہیں ،لیکن یہ وسیلہ ضروری نہیں،بغیر وسیلہ کے بھی کام چل جاتا ہے،تو گویا ہم شرک کررہے ہیں جو وسیلہ سے طلب کرتے ہیں،یہ ہمیں قطعی پسند نہیں کہ شرک کرکے نعوذ باللہ جہنم خریدیں؟

جواب: اگر کوئی شخص حق تعالی سے بغیر وسیلہ کے دعا مانگتا ہے تو یہ بھی درست ہے،اور اگر کوئی شخص حق تعالی سے اس طرح دعا مانگتا ہے کہ یا اللہ میری فلاں حاجت حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل پوری فرمادے تو یہ بھی جائز ہے،اس کو شرک کہنا غلط ہے،اس طرح خود بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تعلیم دی ہے۔

"عن عثمان بن حنيف، أن رجلا ضرير البصر أتى النبي صلى الله عليه وسلم فقال: ادع الله أن يعافيني قال: «إن شئت دعوت، وإن شئت صبرت فهو خير لك». قال: فادعه، قال: فأمره أن يتوضأ فيحسن وضوءه ويدعو بهذا الدعاء: «اللهم إني أسألك وأتوجه إليك ‌بنبيك ‌محمد نبي الرحمة، إني توجهت بك إلى ربي في حاجتي هذه لتقضى لي، اللهم فشفعه في."

(سنن ترمذي،ج: 5، ص: 569، ط: مطبعة مصطفي البابي الحلبي)

جو شخص اس کو شرک کہتا ہے ،اس کو اپنے قول سے رجوع اور توبہ کرنا لازم ہے،فقط واللہ اعلم۔

(فتاوی محمودیہ ،ما یتعلق بالتوسل فی الدعاء، ج: 1، ص: 573، ط: مکتبہ جامعہ فاروقیہ کراچی)

وفیہ أيضا:

"سوال: حقانی صاحب نے اپنے وعظ میں کہا ہے کہ "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یا کسی بھی پیغمبر کے وسیلہ سے دعا مانگنا نہیں چاہیے،بلکہ صرف خدا ہی سے مانگے،یہ بات درست نہیں؟

جواب: حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم یا دیگر انبیاء کرام اور اولیائے کرام کے وسیلہ ےس اس طرح دعا کرنا کہ "یا اللہ: فلاں بزرگ یا فلاں نبی کے طفیل ہماری حاجت پوری فرمادے،شرعاً درست ہے۔

حقانی صاحب نے ہدایہ وغیر ہ کے حوالہ سے یہ مسئلہ بتایا ہے ،وہاں در اصل معتزلہ کا رد مقصود ہے،جس کی تفصیل کتب فقہ میں مذکور ہے،اُس کا اِس مسئلہ سے کوئی تعلق نہیں ،یہاں وہ صورت نہیں جس کو منع کیا گیا ہے،فقط واللہ اعلم۔"

(فتاوی محمودیہ، مایتعلق بالتوسل فی الدعاء،ج: 1، ص: 581، ط: مکتبہ جامعہ فاروقیہ کراچی)

خیر الفتاوی میں ہے:

"سوال: صاحب قبر کے وسیلہ سے اللہ پاک سے دعا کرنا کیسا ہے،اسے شر ک کہا گیاہے یا نہیں؟صاحب قبر کو مختار سمجھتے ہوئے اس سے کوئی چیز مانگنا کیا شرک نہیں،جس شخص کا یہ عقیدہ ہو کہ صاحب قبر مختار ہے ،اس لیے اس سے کچھ مانگنا درست ہے؟

جواب: صاحب قبر کے وسیلہ سے اللہ پاک سے مانگنا جائز ہے،اور ایسے ہی صاحبِ قبر سے اللہ پاک کے دربار میں دعا کرنے کی درخواست کرنے کی بھی شرعاً گنجائش ہے،اسے شرک قرار دینا غلط ہے،صاحبِ قبر کو مختار سمجھتے ہوئے اس سے کوئی چیز مانگنا ،اس کی شرعاً بالکل اجازت نہیں۔"

(خیر الفتاوی ، ج:3 ،ص: 228، ط: مکتبہ امدادیہ )

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144406101576

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں