بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

وساوس کا علاج اور نزول عیسی علیہ السلام کا عقیدہ


سوال

مجھے نبی پاک صلی الله عليه وسلم کے خاتم النبیین ہونے کے بارے میں عجیب وساوس اور شکوک و شبہات آتے ہیں،میرا پورا ایمان ہے "الحمدللہ" کہ نبی پاک صلی الله عليه وسلم کے بعد قیامت تک کوئی نبی نہیں آ سکتا، لیکن میرے ذہن میں شیطان مردود اتنے گھٹیا وساوس لاتا ہے،اورمیرا عبادات میں بھی دل نہیں لگتا، میں قرآن پاک پڑھنے کا سوچتی ہوں،تو ایسا لگتا کہ میں خدانخواستہ دائرہ اسلام سے خارج ہوں، اور پھر قرآن بھی نہیں پڑھ پاتی ،نمازیں صرف فرض پڑھنے لگی ہوں۔

الله کا واسطہ میری مدد کریں، میں ایمان جیسی بڑی، اور عظیم دولت سے محروم ہو نہیں ہونا چاہتی،اپنے رب اور نبی پاک صلی الله عليه وسلم کو ناراض نہیں کرنا چاہتی، پلیز میں بہت پریشان ہوں، مطلب مجھے سمجھ نہیں آ رہا کہ میں اپنے آقا صلی الله عليه وسلم کی بات میں شک کیسے کر سکتی ہوں، لیکن مجھے لگ رہا جیسے یہ شک میرے اوپر غالب آ رہا ہے، میں اس کو خود سوچ رہی ہوں، پلیز میری مدد کر دیں،اور میرے  لیے دعا بھی فرما دیں کہ الله مجھے اور آپ سب کو ایمان کی حالت میں شہادت کی موت نصیب کرے، آمین، ثم آمین!

مجھے کوئی احادیث یا قرانی آیات بھی بتا دیجیے، جس سے میرا ختم نبوت پر ایمان اور مضبوط ہو جائے، میں اس شیطان مردود کو خود پر حاوی نہیں کرنا چاہتی، اور میں ایک اچھی مسلمان عورت بننا چاہتی ہوں، میں بہت غفلت بھری زندگی گزار رہی ہوں، مجھے ایمان کی حالت میں موت کی کوئی دعا بتا دیجیے ،مجھے ایک بات اور واضح کر دیں کہ ؛ حضرت عیسی علیہ السلام بحیثیت امتی کے تشریف لائیں گے،تو نبی امتی کیسے ہوں گے؟ کیا اس پربلا اعتراض  ایمان لانا چاہئے یا اس کی بھی کوئی تفصیل ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں سائلہ کے سوال سے ظاہر ہوتا ہے کہ سائلہ وہم اوروسوسہ کے مرض  میں مبتلاہیں، اور یہ مرض ایک   شیطانی اثرہے،اور شیطان اس بات سے خوش ہوتا ہےکہ کسی مسلمان کو شک، اور وسوسہ میں مبتلا کردے، تاکہ وہ عبادت وغیرہ ادا نہ کر سکے، وہم سے پریشان نہیں ہونا چاہیے، اس کا سب سے کارِگر اور مجرب علاج یہی ہے کہ ان وساوس اور شبہات  کی طرف بالکل  توجہ نہ دی جائے۔

لہذا نمازوں کا اہتمام اور    قرآن پاک کی کثرت  سے تلاوت،اورساتھ ساتھ ان دعاؤں کا اہتمام کریں:

1 : "أَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ."

2 : "اَللّٰهُمَّ إِنِّيْ أَعُوْذُبِكَ مِنْ هَمَزَاتِ الشَّیَاطِیْنِ وَأَعُوْذُبِكَ رَبِّ أَنْ یَّحْضُرُوْنَ."

3: "اَللّٰهُمَّ اجْعَلْ وَسَاوِسَ قَلْبِيْ خَشْیَتَكَ وَ ذِکْرَكَ، وَاجْعَلْ هِمَّتِيْ وَ هَوَايَ فِیْمَا تُحِبُّ وَ تَرْضٰی."

"ترجمہ:  یعنی  اے اللہ! میرے دل کے وساوس کو اپنے خوف اور ذکر سے بدل دیجیے، اور میرے غم اور خواہشات کو ان اعمال میں بدل دیجیے  جن میں آپ کی محبت اور رضا ہو۔"

واضح رہے کہ قرآن و حدیث کی قطعی نصوصِ  متواترہ اس پر شاہد ہیں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم پر اللہ رب العزت نے نبیوں ،اور رسولوں کا سلسلہ منتہی فرمادیا ہے،  اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قیامت تک کے لیے نبی مقرر فرما کر ختمِ نبوت کی خلعت عطا فرمائی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد قیامت تک کوئی دوسرا نبی مبعوث نہیں ہو سکتا  اور  رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اگر کوئی نبوت کا دعوی کرے وہ بالاجماع جھوٹا ہے۔

اورجہاں تک حضرت عیسی علیہ السلام کےنزول کی بات ہےتو وہ نئےنبی کی حیثیت سے نہیں آئیں  گے، بلکہ  وہ نبی آخر الزماں محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی  لائی ہوئی شریعت کی پیروی کریں گے، اور اسی کے مطابق امت میں فیصلے فرمائیں گے،حضرت عیسیٰ علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے اللہ تعالیٰ کے نبی اور رسول بن چکے ہیں،اور حضرت عیسی علیہ السلام قربِ  قیامت میں دجال کو قتل کرنے، صلیب توڑنے، خنزیر کو قتل کرنے، اور  جزیہ اٹھانے کے لیے تشریف لائیں گے،  اس وقت بھی حضرت عیسی علیہ السلام نبی ہوں گے، لیکن یہ نبوت چوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت سے پہلے حاصل ہوچکی ہے، اس لیے یہ ختمِ نبوت کے خلاف نہیں ہے،اور  جو وحی حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر اس زمانے میں آئے گی تو  وہ نئے شریعت  یا حضرت عیسی علیہ السلام کی شریعت یعنی انجیل کے حوالے سے نہیں آئی گی،بلکہ  قرآنِ مجید اور  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کی لائی  ہوئی شریعت کا نفاذ  فرمائیں گے،نیز عیسیٰ علیہ السلام کی حیات قرآن و حدیث سے ثابت ہے،اور ان کا دوبارہ آسمان سے دنیا میں آنا بھی احادیثِ متواتر اور اجماع امت سے ثابت ہے،مذکورہ عقیدہ ضروریات دین میں سے ہے اس کا منکر کافر ہے،اور اس عقیدہ پر ایمان لانا بلاشک وشبہ کے ضروری ہے۔

قرآن کریم میں ہے:

"(مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ وَلٰكِنْ رَسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ) [الأحزاب: 40]

تفسیر ابن کثیر میں ہے:

"قال ابن كثير رحمه الله: "أخبر تعالى في كتابه ، و رسوله في السنة المتواترة عنه: أنه لا نبي بعده؛ ليعلموا أن كل مَنِ ادعى هذا المقام بعده فهو كذاب أفاك، دجال ضال مضل، و لو تخرق وشعبذ، وأتى بأنواع السحر والطلاسم، فكلها محال وضلال عند أولي الألباب، كما أجرى الله سبحانه وتعالى على يد الأسود العَنْسي باليمن، ومسيلمة الكذاب باليمامة، من الأحوال الفاسدة والأقوال الباردة، ما علم كل ذي لب وفهم وحِجى أنهما كاذبان ضالان، لعنهما الله. وكذلك كل مدع لذلك إلى يوم القيامة حتى يختموا بالمسيح الدجال. " انتهى."

 (الأحزاب:38، ج:6 ص: 430،431 ط: دار طيبة للنشر والتوزيع)

صحیح بخاری میں ہے:

"قاعدت أبا هريرة خمس سنين، فسمعته يحدث عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: (‌كانت ‌بنو ‌إسرائيل ‌تسوسهم الأنبياء، كلما هلك نبي خلفه نبي، وإنه لا نبي بعدي، وسيكون خلفاء فيكثرون)."

(كتاب الأنبياء، باب ما ذكر عن بني إسرائيل، ج:3 ص:1273 ط: دار ابن کثیر)

صحیح مسلم میں ہے:

"قاعدت أبا هريرة خمس سنين. فسمعته يحدث عن النبي صلى الله عليه وسلم. قال (‌كانت ‌بنو ‌إسرائيل ‌تسوسهم الأنبياء. كلما هلك نبي خلفه نبي. وإنه لا نبي بعدي. وستكون خلفاء."

( كتاب الأنبياء، باب وجوب الوفاء ببيعة الخلفاء، الأول فالأول، ج:3 ص:1471 ط: دار إحياء التراث العربي)

وفیہ ایضاً:

"عن أبي هريرة؛ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:فضلت ‌على ‌الأنبياء ‌بست: أعطيت جوامع الكلم. ونصرت بالرعب. وأحلت لي الغنائم. وجعلت لي الأرض طهورا ومسجدا. وأرسلت إلى الخلق كافة. وختم بي النبيون."

( كتاب الصلاة، كتاب المساجد ومواضع الصلاة، ج:1 ص:371 ط: دار إحياء التراث العربي)

طرح التثريب في شرح التقريب میں ہے:

"[باب كسر الصليب وقتل الخنزير ووضع الجزية] ‌‌[حديث يوشك أن ينزل فيكم ابن مريم]:

عن سعيد عن أبي هريرة يبلغ به النبي صلى الله عليه وسلم «يوشك أن ينزل فيكم ابن مريم حكما مقسطا يكسر الصليب ويقتل الخنزير ويضع الجزية ويفيض المال حتى لا يقبله أحد» .(فيه) فوائد {الأولى} اتفق عليه الشيخان وابن ماجه من هذا الوجه من طريق سفيان بن عيينة، وأخرجه الشيخان أيضا، والترمذي من طريق الليث بن سعد، وأخرجه الشيخان أيضا من طريق يونس بن يزيد، وصالح بن كيسان كلهم عن الزهري عن سعيد عن أبي هريرة. {الثانية} قوله «يوشك» بكسر الشين أي يقرب، وقوله «أن ينزل» أي من السماء، وقوله «فيكم» أي في هذه الأمة، وإن كان خطابا لبعضها ممن لا يدرك نزوله، وقوله «حكما» بفتح الكاف أي حاكما، والمراد أنه ينزل حاكما بهذه الشريعة لا نبيا برسالة مستقلة وشريعة ناسخة فإن هذه الشريعة باقية إلى يوم القيامة لا تنسخ، ولا نبي بعد نبينا كما نطق بذلك، وهو الصادق المصدوق ‌بل ‌هو ‌حاكم من حكام هذه الأمة، وفي حديث النواس بن سمعان في صحيح مسلم «أنه حين ينزل يمتنع من التقدم لإمامة الصلاة، ويقول إمامكم منكم» ."

(كتاب الجهاد، باب كسر الصليب وقتل الخنزير ووضع الجزية، حديث يوشك أن ينزل فيكم ابن مريم، ج:7 ص:265 ط: دار إحياء التراث العربي)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144503101690

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں