بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

وسوسہ کا علاج


سوال

کسی کو نماز میں بہت زیادہ وہم ہوتا ہو اور وہ بار بار نماز توڑ کر دوبارہ پڑھتا ہو اور وضو میں بھی وہم ہوتا ہو وہ کیا کرے یہاں تک کہ سب اس کا مذاق اڑاتے ہوں کہ وضو جب کرتا ہے تو گھنٹے لگا کر نہا کے آتا ہے یا نماز میں رکن کو بار بار ادا کرتا ہے ایک دفعہ اس کی بہن نے گنا تو ایک رکعت میں اس نے سات سجدے کئے تھے۔ اس شخص نے بھولنے کا مسئلہ کئی دفعہ پڑھا ہے اس کے باوجود اس کو مشکل لگتا ہے اور خود  نہیں کرپاتا خاص طور پر جس کسی عمل کا فقہی مسئلہ پڑھ لے تو پھر اس عمل میں وہم شروع ہوجاتا ہے۔ اس شخص کو پہلے ہی نماز پڑھنا بہت مشکل لگتی تھی اور اب جب اتنی مشکلوں سے نماز پڑھتا ہے تو پھر اس کو نماز پڑھنے کا دل ہی نہیں چاہتا بلکہ ہر نماز کے وقت ایسا لگتا ہے کہ اب ایک بڑا مشکل کام کرنا ہے۔اور اس شخص کے ذمہ کافی سالوں کی قضا بھی ہے، کیونکہ اسے بعض نماز کے مسائل کا علم نہیں تھا جس کی وجہ سے اتنے سالوں کی نماز صحیح نہیں ہوئی اور اب وہ شخص تو فرض اور واجب ہی بڑی مشکل سے ادا کرتا ہے قضا کب اور کیسے ادا کرے؟ اب سوال یہ ہے کہ شک کسے کہتے ہیں؟کبھی تو اسے ایسا خود بخود لگتا ہے کہ شاید میں نے سجدہ کیا ہے یا شاید نہیں کیا اور کبھی خود سوچتا ہے(نماز کے دوران یا نماز کے بعد) کہ کیا ہر رکعت پوری صحیح سے ادا کی تھی یا کچھ چھوٹ گیا تھا پھر وہ ایک ایک رکن جو اس نے ادا کیا تھا اس کی صورت ذہن میں لانے کی کوشش کرتا ہے گویا ذہن میں ویڈیو چلانے کی کوشش کرتا ہے یا رکن ادا کرنے کا کوئی قرینہ یاد کرنے کی کوشش کرتا ہے جیسے رکن ادا کرتے وقت اس نے کچھ خاص کام کیا ہو جیسے کھانسا ہو پھر اگر ان دونوں باتوں میں سے کچھ یاد نہ آئے تو پھر دوبارہ نماز پڑھتا ہے (انہی دو طریقوں کو غالب ظن سمجھتا ہے کہ یہ دونوں طریقے کسی ظن کو غالب بنانے کے سبب ہیں )اور اسی طرح وضو کے بعد بھی ذہن میں ہر رکن یاد کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ ذہن میں جب تک ہر رکن ادا کرتے وقت اس صورت نہ آئے تو پھر وہ رکن دوبارہ ادا کرتا ہے کیا یہ واپس سب ارکان کو ادا کرے وقت کا تصور یا اس پر کوئی قرینہ ذہن میں نہ آنا بھی شک ہے اور غالب ظن اس طرح ہی ہوتا ہے؟یا محض دل کا ایک طرف زیادہ میلان غالب ظن ہوتا ہے؟ صرف نماز وضو میں نہیں بلکہ قرآن کریم صبح شام کی دعائیں اور مسنون دعائیں  بھی شک کی بنا پر بار بار پڑھتا ہے اب نماز میں قرات کرتے وقت اور رکن ادا کرتے وقت خشوع وخضوع تو بہت ہی ناممکن لگتا ہے بلکہ وہ ہر وقت دل میں یہ دہرا رہا ہوتا ہے کہ اب فاتحہ پڑھ لی  یا ابھی پہلی رکعت میں ہوں  گویا اسے اپنے دماغ پر بھروسہ نہیں بلکہ جو وہ کہہ رہا ہوتا ہے دل میں بس وہ بات بعض اوقات یاد رہ جاتی ہے ورنہ دماغ سے جب سوچے کہ رکن ادا کیا ہے یا نہیں۔ تو اکثر اوقات کچھ بھی یاد نہیں آتا اسی وجہ سے وہ بار بار رکن ادا کرتا ہے کبھی کبھی اسے لگتا ہے کہ نماز پڑھنا ہی چھوڑ دے کیونکہ ایسی نماز تو ویسے بھی منہ پر لپیٹ کر پھینک دی جائے گی۔

جواب

وساوس میں مبتلا شخص کے لیے یہی حکم ہے کہ وہ کسی وسوسہ میں مبتلا نہ ہو اور معمول کے مطابق اپنے اعمال جاری رکھے، مثلاً اگر  کسی  شخص کو دورانِ وضو  شک ہوتاہو تو صرف تین مرتبہ اعضاءِ وضو دھوئے،  اگر وسوسہ آ بھی جائے تو اُس کی طرف قطعاً توجہ نہ دے اور  اگر وضو کر لینے کے بعد کسی عضو کے نہ دھونے سے متعلق وسوسہ آئے تو اس کی طرف  التفات کرنے کی ضرورت بھی نہیں اور دوبارہ وضو کرنے کی بھی حاجت نہیں، خلاصہ یہ کہ وساوس کی طرف دھیان نہ دینا ہی اس کا علاج ہے اور اس کے متعلق اپنے علاقہ میں کسی مستند عالم سے رابطہ میں رہے اور اُن کو اپنی نوعیت بتا کر جواب معلوم کرتا رہے۔نیز  کسی ماہرِ نفسیات سے مشورہ کرکے خود اعتمادی پیدا کی جائے، اعصابی کم زوری بھی وسوسے اور شکوک کا سبب ہوسکتی ہے، اپنے عزم اور قوتِ ارادی پر توجہ دینے سے بھی وساوس کم ہوسکتے ہیں۔وہم اور وسوسے کا سب سے کار گر اور مفید  علاج یہی ہے کہ اس کی طرف بالکل  توجہ نہ دی جائے،    وساوس سے بالکل  پریشان نہ ہونا چاہیے، اور  ان کی طرف دھیان ہی نہ دینا چاہیے۔لہذا  بہت غور سے سوچنے کے بجائے جو بات بھی ذہن میں آئے  اس پر عمل کیا کرئے۔ نیز بہت زیادہ فقہی  مسائل کی کتب بھی نہ پڑھے، اگر کوئی مسئلہ پوچھنا ہو تو کسی عالم سے زبانی پوچھ لیا کرے۔ نیز ایسے وساوس سے حفاظت کے لیے ان دعاؤں کا اہتمام کرنا چاہیے:

1... "أَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ

2... اَللّٰهُمَّ إِنِّيْ أَعُوْذُبِكَ مِنْ  هَمَزَاتِ الشَّیَاطِیْنِ  وَأَعُوْذُبِكَ رَبِّ مِنْ أَنْ یَّحْضُرُوْنَ.

3...  اَللّٰهُمَّ اجْعَلْ وَسَاوِسَ قَلْبِيْ خَشْیَتَكَ وَ ذِكرَكَ وَاجْعَلْ هِمَّتِيْ وَ هَوَايَ فِیْمَا تُحِبُّ وَ تَرْضٰى"

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"(ومما يتصل بذلك مسائل الشك) في الأصل من شك في بعض وضوئه وهو أول ما شك غسل الموضع الذي شك فيه فإن وقع ذلك كثيرا لم يلتفت إليه هذا إذا كان الشك في خلال الوضوء فإن كان بعد الفراغ من الوضوء لم يلتفت إلى ذلك ومن شك في الحدث فهو على وضوئه ولو كان محدثا فشك في الطهارة فهو على حدثه ولا يعمل بالتحري. كذا في الخلاصة."

(1/ 13 ط: دار الفكر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307100310

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں