بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

وسائل اور رزق کی تنگی کے ڈر سے خاندانی منصوبہ بندی کی تعلیم دینا


سوال

 آبادی سے متعلق ہمیں پڑھایا جاتا ہے "ہم دو ہمارے دو"یعنی 2 سے زیادہ اولاد نہیں کرنی، ساتھ ہی ساتھ بہت ساری رکاوٹیں یا مانع حمل طریقہ پڑھایا جاتا ہے کہ کس طرح حمل کو روکا جائے یا پھر اسے شروعات کے دن یا مہینوں میں ضائع کر دیا جائے، اور اس میں وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ دنیا میں وسائل محدود ہے، آبادی لگاتار اتنی تیز سے بڑھے گی تو کھانے کو رہنے کو اور قدرتی وسائل استعمال کرنے کے لیے کم پڑ جائیں گے، ماں باپ دو ہی بچے کریں گے تو اُن کے مر جانے کے بعد اُس کی جگہ دو ہی آئیں گے، جس کا متبادل صفر ہوگا، اور بہت ساری اسی طرح کی الٹی سیدھی باتیں دماغ میں ڈالی جاتی ہے برائے مہربانی ان اعتراضات کا تشفی بخش جواب دے دیں ۔

جواب

واضح رہے کہ  ہرمسلمان اللہ پر اس کے ذات و صفات کے ساتھ ایمان لاتا ہے،اور  اللہ کی ایک صفت  "رزاق "  کی ہے،یعنی اللہ تعالی جس جس مخلوق کو وجود بخشتاہے،اور اس کو روح کے ذریعہ زندہ کرتاہے،تو اس کو رزق بھی پہنچاتا ہے،اور اس رزق کے پہنچانے کا ذمہ اللہ تعالی نے خود لیا ،نیزاللہ تعالی تمام تر مخلوقات کے "رب" ہیں ،اور" رب" کا معنی ہےپالنے والا،پرورش کرنے والا،تربیت کرنے والا ،تو  جو اللہ اپنی مخلوق کو پیدا کرے گا ،تواس کو پالنے کا بندوبنست بھی فرمائے گا،اور اس کے رزق کے وسائل بھی جاری فرمائے گا، اس بات کی تعلیم دینا کہ  "ہم دو ہمارے دویعنی 2 سے زیادہ اولاد نہیں کرنی"اور وسائل کے محدود یا ختم ہونے کے ڈر سے  اولاد کی منصوبہ بندی کرنا،شرعاً جائز نہیں، یہ توان لوگوں کے لیے ہے جو اللہ پر ایمان نہیں رکھتے، اور صرف وسائل پر یقین رکھتے ہیں،مسلمان تو وسائل سے بالا تر اپنے رب اور خالق کائنات سماوات والارض  پر یقین رکھتا ہے،دوسرے الفاظ میں غیر مسلم سبب  ظاہری پر یقین رکھتے ہیں ،اور مسلمان سبب باطنی پر ایمان رکھتے ہیں،یا یوں کیا جائے کہ غیر مسلم سبب قریب پر ایمان رکھتے ہیں،اور مسلمان سبب بعید پر ایمان رکھتے ہیں،مثلاً زمین اور ا س کے پیداوار سببِ ظاہری بھی  ہے،اور سببِ قریب بھی،اور پیداوار کو زمین میں پیدا کرنے والا سببِ بعید اور سببِ باطن  ہے ،وہ اللہ تعالی کی ذات اقدس ہے،لہذا ایک مسلمان کو ایسی باتوں میں آکر اپنے یقین اور ایمان متززل نہیں کرنا چاہیے،مزید یہ کہ غیر مسلموں میں نکاح کا  نظام نہ ہونے کی وجہ سے روز بروز آبادی کم ہورہی ہے،اور مسلمانوں میں نکاح کے نظام کی وجہ سے آبادی بڑھ رہی ہے،اس لیے غیر مسلموں کی کوشش ہے کہ مسلمانوں کی آبادی کو بڑھنے نہ دیا جائے،اس لیے منصوبہ بندی اور اسقاطِ حمل وغیرہ کے لیے خوب پیسے خرچ کرتے ہیں،تاکہ غیر مسلمون کی آبادی کم ہونے کی وجہ سے ان کے ہاتھ سے حکومت نہ چلی جائے،اس لیے مسلم علاقے میں جنگ کراتے ہیں،نسل کشی کراتے ہیں وغیرہ۔

باری تعالی کا ارشاد ہے:

"وَ مَا مِنْ دَآبَّةٍ فِی الْاَرْضِ اِلَّا عَلَى اللّٰهِ رِزْقُهَا وَ یَعْلَمُ مُسْتَقَرَّهَا وَ مُسْتَوْدَعَهَا."(سورة هود، الآية123)

دوسری جگہ اللہ تعالی ارشاد ہے:

"{وَلَا تَقْتُلُوا أَوْلَادَكُمْ خَشْيَةَ إِمْلَاقٍ نَحْنُ نَرْزُقُهُمْ وَإِيَّاكُمْ إِنَّ قَتْلَهُمْ كَانَ خِطْئًا كَبِيرًا } (31)}" [الإسراء: 31]

مشکاۃ الصابیح میں ہے:

"وعن معقل بن يسار قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «‌تزوجوا الودود الولود فإني مكاثر بكم الأمم» . رواه أبو داود والنسائي." 

(كتاب النكاح، الفصل الثاني، ج:2 ص:929 ط: المكتب الإسلامي)

صحیح مسلم میں ہے:

"عن عائشة عن جذامة بنت وهب أخت عکاشة، قالت: حضرت رسول الله ﷺ … ثم سألوه عن "العزل"؟ فقال رسول الله ﷺ: ذلک الوأد الخفي". وزاد عبید الله في حدیثه عن المقرئ: ﴿وَاِذَا الْمَوْؤدَةُ سُئِلَتْ﴾." 

(كتاب النكاح، باب جواز الغیلة، وهی وطی المرضع وکراهة العزل، ج:4 ص:161 ط: دار الطباعة العامرة)

صحیح بخاری میں ہے:

"باب قول الله تعالى: {ومن يقتل مؤمنا متعمدا فجزاؤه جهنم}حدثنا قتيبة بن سعيد، حدثنا جرير، عن الأعمش، عن أبي وائل، عن عمرو بن شرحبيل، قال: قال عبد الله: قال رجل: يا رسول الله، أي الذنب أكبر عند الله؟ قال: «أن تدعو لله ندا وهو خلقك» قال: ثم أي؟ قال: «ثم أن تقتل ولدك خشية أن يطعم معك» قال: ثم أي؟ قال: «ثم أن تزاني بحليلة جارك» فأنزل الله عز وجل تصديقها: {والذين لا يدعون مع الله إلها آخر ولا يقتلون النفس التي حرم الله إلا بالحق ولا يزنون ومن يفعل ذلك يلق أثاما} الآية."

(كتاب الديات، باب قول الله تعالى ومن يقتل مؤمنا متعمدا فجزاؤه جهنم، ج:9 ص:2 ط: دار طوق النجاة)

عمدۃالقاری میں ہے: 

"قال العلام العینی تحت قول :’’ نھانا عن ذالك‘‘، یعني : عن الاختصاء، وفیه تحریم الاختصاء لما فیه من تغییر خلق اللہ تعالیٰ،  ولما فیه من قطع النسل و تعذیب الحیوان."

( کتاب التفسیر، باب قوله تعالیٰ:’’یا أیھا الذین اٰمنوا لا تحرموا طیبات ما احل اللہ لکم‘‘،ج: 18 ص:280 ط: دار الکتب العلمیة)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144507101990

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں