بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

وارث ترکہ کے مکان میں رہے تو کرایہ کا حکم


سوال

ہم(میں، میری بیٹی اور داماد )میرےمرحوم بیٹے کے فلیٹ میں، اس کے کاغذات مکمل  ہونے تک رہائش پذیر رہے،اس دوران میری پوتی(مطلقہ بہو کی بیٹی)اورمیرے بیٹے کی دوسری بیوی رابطے میں تھی اور اس فلیٹ میں بھی کبھی ،کبھی آتی تھی،لیکن انہوں نے کبھی بھی مجھ سےکرایہ کی بات نہیں کی،اب جب فلیٹ کے کاغذات مکمل ہوگئے اور ہم ترکہ کی تقسیم کے لیے فلیٹ خالی کرنے لگے، تو یہ لوگ ہم سے کرایہ  کامطالبہ کررہے ہیں،اب سوال یہ ہے کہ کیا ہم کرایہ دینے کے پابند ہیں یا نہیں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر پہلے سے کوئی کرایہ طے نہیں کیا گیاتھا، تو ایسی صورت میں ان پر اس فليٹ میں اب تک رہائش پذیر رہنے کی وجہ سے کوئی کرایہ لازم نہیں ہے، کرایہ کا مطالبہ کرنے والے غلطی پر ہیں۔

الدر مع الرد میں ہے:

"قلت: وفي القنية لا يلزم الحاضر في الملك المشترك أجر، وليس للغائب استعماله بقدر تلك المدة؛ لأن المهايأة بعد الخصومة اهـ."

(کتاب الشرکة، 4/304، ط: سعید)

وفيه أیضاً:

"لو واحد من الشريكين سكن … في الدار مدة مضت من الزمن...فليس للشريك أن يطالبه … بأجرة السكنى ولا المطالبه...بأنه يسكن من الأول … لكنه إن كان في المستقبل...يطلب أن يهايئ الشريكا … يجاب فافهم ودع التشكيكا.

(کتاب الشرکة،‌‌ فصل في الشركة الفاسدة، 4/374، ط: سعید)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144306100849

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں