بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

وارث نے مرحوم کو قرض دیا تھا / اس کی مدد کی تھی تو اب کیا حکم ہے


سوال

 پہلا مسئلہ ہم سات بہن بھائی ہیں۔ دو بہنیں اور پانچ بھائی۔ والد صاحب کا ڈیڑھ سال قبل انتقال ہو چکا ہے او ر والدہ حیات ہیں۔ ہمارے والد صاحب کا ایک آبائی گھر تھا جہاں ہم سب کی رہائش تھی جو کہ کافی بوسیدہ حالت میں تھا۔ اس گھر کے کچھ حصے آمدنی کے لئے کرایہ پر دئے ہوئے تھے۔مکان کی مرمت کے لیے اور فروخت سے پہلے کرایہ داروں سے خالی کرانے کے لئے پیسوں کی ضرورت پڑی تو والدہ نے اپنا زیورجو کہ تقریباً 5تولہ وزن تھا وہ ان کو دے دیا تھا جس کی مالیت تقریباً 5لاکھ بنتی ہے۔ کام کروا کے گھر فروخت کر دیا گیا۔ نیا گھر لینے سے پہلے والد نے والدہ سے کہا تھا کے اپنے پیسے چاہو تو نکال لو مگر والدہ نے کہا کے پہلے دوسرا گھر لے لیں تاکہ گھر کے پیسوں میں کمی نہ ہو۔ گھر خریدنے میں تمام رقم استعمال ہو گئی۔ اب والد کے انتقال کے بعد گھر میں کشیدگی کے باعث والدہ چاہتی ہیں کے گھر کو فروخت کرکے وارثین کو شرعاً حصے دے دئے جائیں (تمام اولادیں شادی شدہ ہیں)۔ مگر والدہ کی خواہش عمرہ ادا کرنے کی بھی ہے اور وہ کسی بھی اولاد پہ بوجھ بننے کی بجائے چاہتی ہیں کے ان کے زیور کے پیسے ان کو دیدیئے جائیں۔

دوسرا مسئلہ والد نے جو دوسرا گھر خریدا تھا، کچھ سالوں بعد اس کی مرمت کی ضرورت پڑی کیونکہ گراؤنڈ فلور پرانی تعمیر کے باعث کافی ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھا اور پانی کی لائنیں بھی بوسیدہ ہو گئی تھیں۔ اس تمام مرمت پر تقریباً سات لاکھ روپیہ خرچ ہوا جو ایک بھائی نے دئیے اور دوسرے بھائی نے 50ہزار مکان پر خرچ کئے۔ والد صاحب نے اپنی زندگی میں کئی بار ہمارے سامنے اور کئی لوگوں سے اس بات کا ذکر کیا تھا کہ جب بھی یہ گھر بکے گا پہلے ان کے پیسے ان کو دیئے جائیں گے اس کے بعد حصے لگیں گے۔ اس بات کے ہم سب بہن بھائی، والدہ، داماد اور کئی ملنے جلنے والے گواہ ہیں مگر کچھ بھائی اب یہ کہتے ہی کہ مرنے والے کے ساتھ اس کی باتیں اورکمٹمنٹ (وعدے) بھی ختم ہو جاتے ہیں۔ اگر والد نے وصیت لکھ کر گواہوں کی موجودگی میں دستخط کیے ہوتے تو ان کی بات مانی جاتی حالانکہ وہ خود بھی اس بات کے گواہ ہیں۔ اب آپ ہماری رہنمائی فرمائیں کے شرعاً ان مسئلوں کا کیا حل ہے ؟

جواب

1 : آپ کی ذکر کردہ تفصیل سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی  والدہ نے  زیور بطور قرض  دئے تھے،اس لئے  وراثت کی تقسیم سے پہلے انہیں اتنا ہی زیور یا اس کی موجودہ قیمت ادا کی جائے گی۔اور اگر والدہ اس کی صراحت کرتی ہیں کہ زیوارات بطور قرض نہٰیں بلکہ بطور تعاون دئے تھے تو پھر والدہ یہ رقم لینے کی حقدار نہیں ہیں،الا یہ کہ تمام ورثاء عاقل بالغ ہوں اور اپنی خوشی سے یہ رقم والدہ کو دینا چاہیں تو دے سکتے ہیں۔

2 : اگر بھائیوں نے مرحوم والد کو بطور قرض پیسے دیے تھے تو جتنے پیسے بھائیوں نے دیے، ترکہ کی تقسیم سے پہلے وہ ان پیسوں کے مستحق ہوں گے اور اگر قرض کے طور پر پیسے نہیں دیے تھے بلکہ ان کے ساتھ نیکی اور احسان کرنے کے لیے دیے تھے، تو والد کی وصیت ہونے کے باوجود ورثاء کی رضامندی کے بغیر ان بھائیوں کو پیسے نہیں دیے جائیں گے بلکہ جو بالغ وارث والد کی وصیت پر عمل کرنا چاہے، وہ اپنے حصے میں سے مذکورہ بھائیوں کو ان کے پیسے دے سکتا ہے، جو عمل کرنا نہ چاہے، اسے مجبور نہیں کیا جاسکتا۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6 / 656):
"(إلا بإجازة ورثته)؛ لقوله عليه الصلاة والسلام: «لا وصية لوارث إلا أن يجيزها الورثة»". فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144110200598

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں