بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

وارث کے حق میں وصیت کا حکم


سوال

میں اپنے والد کا اکلوتا بیٹا ہوں جو زندہ ہے میرے تین بھائیوں کا انتقال میرے والد کی زندگی میں ہی ہو گیا تھا مرنے سے پہلے میرے والد نے وصیت کی کہ میرے مرنے کے بعد میرا سارا پیسہ میری بیوی اور میری بیٹی کو دے دینا پوچھنا یہ تھا کہ کیا ان کی وفات کے بعد میں وراثت (پیسے) سے محروم ہو چکا ہوں؟ کیا وصیت معتبر ہے یا کالعدم ہو گئی؟

جواب

صورت ِ مسئولہ میں سائل اپنے والد مرحوم  کا دیگر شرعی  ورثاء "بیوہ، بیٹی" کی طرح  شرعی وارث ہے، والد کابیٹۓ کو محروم کر کے سارا پیسا بیوی  اور بیٹی کو دینے کی وصیت کرنا جائز نہیں ہے، اور نہ ہی ایسی وصیت قابلِ عمل ہے۔ نیز وارث کے حق میں وصیت  شرعاًمعتبر نہیں ہے الا یہ کہ  دیگر تمام   ورثاء عاقل وبالغ ہوں اور دلی خوشی  سے اس وصیت کو تسلیم کریں  تو اس وصیت کے مطابق عمل کیا جائے، اور اگر دیگر ورثاء  وارث کے حق میں وصیت پر راضی نہ ہوں تو  تمام متروکہ جائیداد مرحوم کے تمام شرعی ورثاء میں ان کے حصوں کے مطابق تقسیم کیا جائے گا۔

حدیث شریف میں ہے:

"و عن أنس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من قطع ميراث وارثه قطع الله ميراثه من الجنة يوم القيامة». رواه ابن ماجه".

(مشكاة المصابيح، کتاب الفرائض، باب الوصایا، الفصل الثالث، ج:(2 ، صفحہ:926، ط:المكتب الإسلامي - بيروت) 

الدرالمختار وحاشیہ ابن عابدین میں ہے:

"(ولا لوارثه وقاتله مباشرة)  (إلا بإجازة ورثته) لقوله  عليه الصلاة والسلام: «لا وصية لوارث إلا أن يجيزها الورثة» يعني عند وجود وارث آخر كما يفيده آخر الحديث  (وهم كبار) عقلاء فلم تجز إجازة صغير ومجنون وإجازة المريض كابتداء وصية ولو أجاز البعض ورد البعض جاز على المجيز بقدر حصته."

(کتاب الوصایا، ج: صفحہ: 655 و656، ط: ایچ، ایم، سعید)

  فقط واللہ اعلم

 

 


فتوی نمبر : 144301200226

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں