بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

وارث کے حق میں وصیت کرنا اور قرض کی زکاۃ کا حکم


سوال

1: کیا میں ایک تہائی کی وصیت اپنی بیوی کے لئے کر سکتا ہوں والدہ حیات ہیں ،بیوی، ایک بیٹی اور  دوبیٹے ہیں۔

2 :دس سال پہلے میرے پاس مکان خریدنے کے لیے رقم تھی تو میری بیوی نے اپنا زیور فروخت کرکے مجھے دیاتھا جو میں اب اس کو واپس کرنا چاہتا ہوں کیا میری بیوی کو ان دس سالوں کی زکواة نکالنی ہوگی؟

جواب

   وارث کے  حق میں  کی جانے والی وصیت شرعا معتبر اور نافذ العمل  نہیں ہوتی البتہ اگرتمام عاقل بالغ  شرعی ورثاء  کسی وارث کے لیے کی جانے والے وصیت  پر عمل کرنے پر راضی ہوجائیں تو  اس وصیت پر عمل  کرنا جائز اور درست ہوتا ہے ۔

لہٰذا مذکورہ تفصیل کی رو سے بیوی چونکہ سائل کی شرعی وارث ہے،اس لیے اس کے حق میں اگر ایک تہائی مال وصیت کر بھی دی تو وہ وصیت شرعا معتبر اور نافذ العمل نہیں ہوگی،البتہ اگر تمام عاقل بالغ  شرعی ورثاء مذکورہ وصیت پر عمل کرنے پر راضی ہوجائیں تو  اس وصیت پر عمل  کرنا جائز اور درست ہوگا ۔

2۔سائل کی بیوی نے اگر مذکورہ رقم بطور قرض کے دی تھی تو بیوی پر دس سالوں کی زکاۃ ادا کرنا لازم ہوگا۔

فتاوی شامی میں ہے:

)ولا لوارثه وقاتله مباشرة)  لا تسبيبا كما مر (إلا بإجازة ورثته) لقوله - عليه الصلاة والسلام - لا وصية لوارث إلا أن يجيزها الورثة يعني عند وجود وارث آخر

(کتاب الوصایا/6/ 655/ط:سعید)

فتاوی شامی میں ہے:

"(و) اعلم أن الديون عند الإمام ثلاثة: قوي، ومتوسط، وضعيف؛ (فتجب) زكاتها إذا تم نصابا وحال الحول، لكن لا فورا بل (عند قبض أربعين درهما من الدين) القوي كقرض (وبدل مال تجارة) فكلما قبض أربعين درهما يلزمه درهم

(قوله: عند قبض أربعين درهما) قال في المحيط؛ لأن الزكاة لا تجب في الكسور من النصاب الثاني عنده ما لم يبلغ أربعين للحرج فكذلك لا يجب الأداء ما لم يبلغ أربعين للحرج.

وذكر في المنتقى: رجل له ثلثمائة درهم دين حال عليها ثلاثة أحوال فقبض مائتين، فعند أبي حنيفة يزكي للسنة الأولى خمسة وللثانية والثالثة أربعة أربعة من مائة وستين، ولا شيء عليه في الفضل؛ لأنه دون الأربعين. اهـ

 (کتاب الزکاۃ،باب زکاۃ المال،2/ 305،ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144305100421

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں