اگر ایک شخص وراثت میں اپنا شرعی حصہ بہن بھائیوں کو ہبہ کرتا ہے تو کیا وہ دوبارہ ان سے طلب کر سکتا ہے؟
واضح رہے کہ ترکہ کی تقسیم سے پہلے کسی وارث کا ترکہ میں سے اپنے شرعی حصہ سے بلا عوض کسی دوسرے وارث یا ورثاء کے حق میں دست بردار ہوجانا شرعاً معتبر نہیں ہے، اس سے اس کا حق ختم نہیں ہوتا۔ اسی طرح اگر ترکہ میں کئی ورثاء کا حق ہو اور وہ ترکہ ان سب میں مشترک ہو تو کسی ایک وارث کا تقسیم سے پہلے اپنا حصہ دوسروں کو دینے سے ہبہ نافذ نہیں ہوتا۔
البتہ ترکہ کی تقسیم ہوجانے کے بعد اپنا حصہ کسی کو ہبہ کرنا یا کسی کے حق میں دست بردار ہوجانا شرعاً جائز اور معتبر ہے۔
اسی طرح کوئی وارث ترکہ میں سے کوئی چیز لے کر (خواہ وہ معمولی ہی کیوں نہ ہو) صلح کرلے اور ترکہ میں سے اپنے باقی حصہ سے دست بردار ہوجائے تو یہ بھی درست ہے، اسے اصطلاح میں " تخارج" کہتے ہیں۔
ان دونوں صورتوں میں پھر ایسے شخص کا اس ترکہ میں حق باقی نہ رہے گا۔
لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر مذکورہ وارث تقسیم سے پہلے اپنے حصہ سے دست بردار ہوا تھا یا اس نے اپنا حصہ دیگر ورثاء کو ہبہ کردیا تھا تو اس کا دست بردار ہونا شرعًا معتبر نہیں ہوا، اب اگر وہ دوبارہ مطالبہ اپنے حق کا مطالبہ کرنا چاہے تو کرسکتا ہے۔
لیکن اگر مذکورہ وارث نے ترکہ کی تقسیم کے بعد اپنا حصہ وصول کر کے کسی ایک وارث کو یا متعدد ورثاء کو متعین کرکے الگ الگ گفٹ کردیا تھا یا ترکہ میں کوئی چیز لے کر باقی حصہ معاف کردیا ہو تو اس صورت میں اس کا دست بردار ہونا معتبر ہوگا، اب اس کے بعد وہ دوبارہ اس کا مطالبہ نہیں کرسکتا۔
" تکملۃ رد المحتار علی الدر المختار" میں ہے:
" الإرث جبري لَا يسْقط بالإسقاط".
(ج: 7/ص:505 / کتاب الدعوی، ط :سعید)
"الأشباہ والنظائر" لابن نجیم میں ہے:
"لَوْ قَالَ الْوَارِثُ: تَرَكْتُ حَقِّي لَمْ يَبْطُلْ حَقُّهُ؛ إذْ الْمِلْكُ لَايَبْطُلُ بِالتَّرْك".
(ص:309- ما یقبل الإسقاط من الحقوق وما لایقبله، ط:قدیمی)
الفتاوى الهندية (4 / 378):
"والشيوع من الطرفين فيما يحتمل القسمة مانع من جواز الهبة بالإجماع، وأما الشيوع من طرف الموهوب له فمانع من جواز الهبة عند أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - خلافا لهما، كذا في الذخيرة."
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144204201000
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن