بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

8 ذو القعدة 1445ھ 17 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

وارث کا مورث کا قرضہ معاف کرنے کے بعد دوبارہ مطالبہ کرنا


سوال

والدہ نے مجھے سے تین لاکھ قرض لیا تھا، ان کا انتقال ہوگیا، گھر والے اس پوزیشن میں نہیں تھے کہ پیسے لوٹائیں، میں نے ان کو قرض معاف کردیا تاکہ  ان کو آخرت میں حساب نہ دینا پڑے، اب جب کہ مکان بک رہا ہے، میں بے گھر ہوں، میں نے کہا  کہ : میں نے مجبوری میں معاف کئے تھے ، پیسہ نہ ہونے کی وجہ سے، اب تم لوگ چاہو  تو مجھے یہ رقم لوٹادو، کچھ دینے میں خوش ہیں اور کچھ ناخوش،  سوال یہ ہے کہ : کیا مجھے ان سے یہ رقم لینی چاہیے کہ نہیں؟

جواب

صورت  مسئولہ میں والدہ کے انتقال کے بعد  ان کے ترکہ میں سے تجہیز وتکفین کے اخراجات نکالنے کے بعد  ، سائل کو اپنے قرضہ وصول کرنے کا حق تھا، لیکن جب اس نے   ترکہ سے اپنا قرضہ وصول کرنے کے بجائے    قرضہ معاف کردیا  اور اس وقت ورثاء نے اس کو رد نہیں کیا تو وہ قرضہ شرعاً معاف ہوگیا ؛ لہذا اب سائل  کو مرحومہ کے دیگر  ورثاء سے اس رقم کے  دوبارہ مطالبہ کرنے کا حق نہیں ہے، البتہ  سب عاقل ، بالغ   ورثاء اپنی رضا و  خوشی   سے   ترکہ میں سے یا بعض ورثاء اپنے حصے سے   وہ رقم سائل کو واپس کردیں تو یہ ان کی طرف سے تبرع واحسان ہوگا، اور سب یا بعض ورثاء کی طرف سے خوشی  ورضا سے دی ہوئی رقم سائل کے لیے  لینا جائز ہوگا۔

فتاوی شامی میں ہے :

"(و) الدين الصحيح (هو ما لا يسقط إلا بالأداء أو الإبراء) ولو حكما بفعل يلزمه سقوط الدين ."

(5 / 302، كتاب الكفالة، ط: سعيد)

درر الحكام في شرح مجلة الأحكام میں ہے:

"(لا يتوقف الإبراء على القبول، ولكن يرتد بالرد فلذلك لو أبرأ أحد آخر فلا يشترط قبوله ولكن إذا رد الإبراء في ذلك المجلس بقوله: لا أقبل الإبراء يكون ذلك الإبراء مردودا. يعني لا يبقى له حكم. لكن لو رده بعد قبول الإبراء فلا يرتد الإبراء."

 (4 / 76، المادة (1568)، [الفصل الثاني في المسائل المتعلقة بأحكام الإبراء]، ط: دارالجیل)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144305100250

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں