بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

وارث کا ترکہ والے گھرمیں کرایہ دارکی حیثیت سےرہنا


سوال

ہمارے والدکےانتقال کے بعدورثاء میں ہماری والدہ، پانچ بھائی اورتین بہنیں ہیں ۔ والدمرحوم کے ترکہ کی زمینیں فروخت کرکےورثاء میں شرعی طورپررقم تقسیم کردی ہے۔اب مرحوم والدکے گھرمیں والدہ اورہم تین بھائی رہتےہیں ، ایک بھائی لڑکرالگ ہواہے اوردوسرے نے اپنی مرضی سے گجرات میں شادی کی ہےاوروہیں رہتاہے۔

ہماراآدھاگھرکرایہ پرہے اورآدھے میں ہم رہتےہیں ، اورکرایہ بھی ہم تقسیم کرتےہیں ۔ لیکن گجرات والابھائی کہتاہے کہ مجھے ڈبل کرایہ دو، کرایہ والے حصے کابھی اورجس میں ہم رہتےہیں اس کابھی اورہم اسے ایک وقت تک ڈبل کرایہ دیتے بھی رہے۔ توشریعت کی روشنی میں بتائیں کہ اسے ڈبل  کرایہ ملناچاہئے کہ نہیں ؟

جواب

صورت مسئولہ میں والد مرحوم کے ترکہ کی تقسیم کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ مرحوم کے حقوق متقدمہ یعنی تجہیز و تکفین کا خرچہ نکالنے کے بعد اگر ان کے ذمہ کوئی قرض ہو تو اسے ادا کرنے کے بعد اگر کوئی جائز وصیت کی ہو تو اسے ایک تہائی ترکہ میں نافذ کرنے کے بعد باقی کل ترکہ کو 104حصوں میں  تقسیم کرکے13حصے بیوہ کو،14 حصے ہرایک بیٹے کواور7حصےہرایک بیٹی کوملیں گے۔

میت:8/ 104

بیوہ بیٹابیٹابیٹابیٹابیٹابیٹیبیٹیبیٹی
17
131414141414777

یعنی سوروپے میں سے 12.50روپےبیوہ کو، 13.461روپے ہرایک بیٹے کو، 6.730روپے ہرایک بیٹی کوملیں گے۔

اب اگرآدھامکان کرایہ پردےکردرج بالا تناسب سے تقسیم بھی کیاجارہاہے ،توبقیہ آدھے مکان کے بارے میں بھی بقیہ حصہ داروں کایہ کہنا کہ اس کاکرایہ بھی انہیں دیاجائے درست ہے اورورثاء  میں سےجو کوئی اس گھرمیں رہائش اختیارکریں گے توانہیں کرایہ بھی اداکرناپڑے گا۔اوروہ کرایہ دارکی حیثیت سے رہ سکتے ہیں ۔لہذاگجرات والے بھائی کامطالبہ درست ہے کہ مکان کے دونوں حصوں کےحساب سے کرایہ تقسیم کیاجائے۔

فتاوی شامی میں ہے:

( وقسم ) المال المشترك ( بطلب أحدهم إن انتفع كل ) بحصته ( بعد القسمة وبطلب ذي الكثير إن لم ينتفع الآخر لقلة حصته ) وفي الخانية يقسم بطلب كل وعليه الفتوى۔

(رد المحتار علی الدر المختار ، كتاب القسمة  ٦/ ۲٦٠ ط: سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144304100864

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں