بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

وارث کا گفٹ کا دعویٰ کرنا / 3 بیٹے اور 4 بیٹیوں میں ترکہ کی تقسیم


سوال

میرے والد صاحب کا گھر تھا، ان کا انتقال ہوگیا ہے، ورثاء میں  3 بیٹے ، 4 بیٹیاں اور بیوہ تھیں، پھر بیوہ کا  انتقال ہوگیا، ورثاء میں    3 بیٹے  اور  4 بیٹیاں  ہیں، لیکن یہ گھر ہماری چھوٹی بہن نے اپنے نام کرلیا  اور  کہہ رہی ہیں  کہ یہ گھر والدہ نے مجھے  دے دیا تھا، والد اور والدہ دونوں کا اسی گھر میں انتقال ہوا ہے، شریعت کی رو سے اس کا کیا حکم ہے۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں    سائل کے والد کا مذکورہ ملکیتی مکان  ان کے انتقال کے بعد اگر واقعۃً  سائل کی والدہ نے   اپنی چھوٹی بیٹی کو دے دیا ہو تب بھی مذکورہ گھر بیٹی کا نہیں ہوگا؛ اس لیے کہ والد کے انتقال کے بعد اس میں بیوہ سمیت دیگر تمام ورثاء کا حق متعلق ہوگیا تھا، کسی ایک وارث کا دیگر  عاقل بالغ ورثاء کی اجازت کے بغیر  مکمل گھر کسی کو گفٹ کردینا یا تقسیم سے پہلے صرف اپنا حصہ گفٹ کردینا شرعاً معتبر نہیں ہوتا، نیز اگر مکان والد کی زندگی میں ہی والدہ نے والد کی اجازت سے یا بغیر اجازت کے گفٹ کیا ہو  اور والد اسی مکان میں تاحیات رہائش پذیر  تھے   تو اس صورت میں بھی یہ گفٹ مکمل نہیں ہوا، لہذا بہن کا اس مکان کی ملکیت کا دعویٰ کرنا درست نہیں ہے، مذکورہ مکان سائل کے والد کا ترکہ ہے، جو تمام شرعی ورثاء میں شرعی حصص کے اعتبار سے تقسیم ہوگا۔

سائل کے والدین کے ترکہ  کی تقسیم کا طریقہ یہ ہے کہ  ترکہ میں ان کے حقوق متقدمہ یعنی تجہیز وتکفین کے اخراجات نکالنے کے بعد ، اگر ان کے ذمہ کوئی قرض ہو تو اسے کل ترکہ میں سے ادا کرنے کے بعد ، اگر انہوں نے کوئی جائز وصیت کی ہو تو اسے ایک تہائی ترکہ میں سے نافذ کرکے باقی کل منقولہ وغیر منقولہ ترکہ کو 10 حصوں میں تقسیم کرکے  دو، دو حصے ہر ایک بیٹے کو اور ایک ایک حصہ ہر ایک بیٹی کو ملے گا۔

صورت تقسیم یہ ہے:

میت: 10

بيٹابيٹابيٹابيٹيبيٹيبيٹيبيٹي
2221111

يعنی مثلاً 100 روپے میں سے 20،20 روپے ہر ایک بیٹے کو اور 10، 10 روپے ہر ایک بیٹی کو ملیں گے۔

فتاویٰ عالمگیری میں ہے:

"لايثبت الملك للموهوب له إلا بالقبض هو المختار، هكذا في الفصول العمادية". 

(4/378،  الباب الثانی فیما یجوز من الھبة وما لا یجوز، ط: رشیدیة)

وفیہ أیضاً:

"وتصح في محوز مفرغ عن أملاك الواهب وحقوقه ومشاع لايقسم ولايبقى منتفعًا به بعد القسمة من جنس الانتفاع الذي كان قبل القسمة كالبيت  الصغير والحمام الصغير ولا تصح في مشاع يقسم ويبقى منتفعا به قبل القسمة وبعدها، هكذا في الكافي".

(4/374، الباب الثاني فيما يجوز من الهبة وما لا يجوز، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144306100574

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں