بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

وارث کے لئے وصیت کرنے کا حکم


سوال

کیا فرماتے ہیں علماء کرام ومفتیان دین درج ذیل مسئلہ کے بارے میں: ایک صاحب نے اپنی زندگی ہی میں اپنی وراثت تقسیم کردی تھی، انتقال ہونے کے 10 سال بعد وصیت کے مطابق جو کہ فی حصہ 3 لاکھ بن رہا تھا دگنا کرکے 6،6 لاکھ ادا کردئیے گئے۔ اس ادائیگی کے بعد مذکورہ حصہ وارثوں نے استعمال کرلیا ہے۔ اب تقریبا چار سال بعد ایک وارث نے یہ کہا ہے کہ یہ وراثت شرعی تقاضو کے مطابق تقسیم نہیں ہوئی۔ آپ حضرات کیا فرماتے ہیں کہ وراثت کو تقسیم کرنے کے بعد جبکہ تمام وارثوں نے متفقہ طور پر اسے منظور کرلیا تھا اور وراثت کے حصہ کو اپنے استعمال میں بھی لاچکے ہیں اب جاکر کسی کو اعتراض کا حق ہے یا نہیں؟ نیز مطالبہ کرنے والے کے مطالبہ کے مطابق کیا دوبارہ اس مسئلہ وراثت کی تقسیم پر غور کرنا پڑے گا یا جو تقسیم ہوچکی ہے وہی کافی ہے؟؟ ازراہِ کرم شریعت مطہرہ کی روشنی میں مفصل جواب تحریر فرمائیں۔ اللہ تعالیٰ آپ حضرات کی محنت کو قبول فرمائے اور علم وعمل میں برکت واخلاص عطا فرمائے۔

جواب

وصیت ورثاء کے حق میں ہو تو اس کا نفاذ دیگر ورثاء کی رضامندی پر موقوف رہتا ہے، اگر وہ اجازت دے دیں تو وصیت قابل عمل ٹھہرتی ہے ورنہ کالعدم ہو جاتی ہے۔ جن ورثاء کے حق میں مرحوم نے وصیت کی تھی اگر از روئے وراثت ان کا حصہ چھ لاکھ یا اس سے کم بنتا تھا تو ان کو اعتراض کا حق نہیں کیونکہ وہ اپنے حق کے بقدر یا اس سے زائد وصول کر چکے ہیں اور اگر ان کا حصہ وراثت وصیت کی روسے ملنے والے حصے سے زیادہ بنتا ہے تو وہ اس زائد مقدار مانگنےمیں حق بجانب ہیں۔ بہتر یہ ہے کہ مکمل تفصیل ہمیں مہیا کی جائے۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143101200294

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں