بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

وارث کے لیے وصیت کا حکم


سوال

میرے تایا جو کہ ایک بڑے بزنس مین تھے جن کے چار بیٹے تین بیٹیاں اور ایک اہلیہ ہیں، سب سے بڑی بیٹی کی شادی 1998 میں کی اور 2007 میں بیٹی کو ایک پلاٹ دلایا دوسری بیٹی کی شادی 2002 میں کی اور 2016 میں دوسری بیٹی کو ایک بنگلہ دلایا گیا تیسری بیٹی  کی شادی 2010 میں کی اور 2018 میں اسے ایک جگہ دلانے کے لیے دکھائی جو کہ بیٹی کو پسند نہیں آئی لہذا خود والد بھی کسی اچھی جگہ کی تلاش میں رہے اور بیٹوں کو بھی تلاش کی ہدایت کی اسی دوران بیمار رہنے لگے اور بیٹوں کو کئی مرتبہ ہدایت کی کہ سب سے چھوٹی بیٹی صائمہ کو میرے مال میں سے ایک کروڑ تک کا مکان یا پلاٹ دلانا ہے جس پر تمام بیٹوں نے لبیک کہا بلکہ انتقال سے ایک دن پہلے بھی بیٹوں کو ہدایت کی اور بیٹوں نے ذمہ داری بھی اٹھائی اور دوسرے دن انتقال کر گئے اب مرحوم کی اہلیہ اور تمام بیٹے اس وصیت یا ارادے کے گواہ ہیں ایسے میں وصیت معتبر رہے گی یا نہیں ؟

جواب

اگر کسی شخص نے اپنی جائیداد کے بارے میں وصیت لکھی ہے اور کسی ایک بیٹے یا بیٹی کو زیادہ جائیداد دینے کی وصیت کی ہے تو اس کا حکم یہ ہے کہ:

میراث کے مال میں وارث کا حق شریعت نے متعین کر رکھا ہے، اور اگر کسی شخص نے اپنے کسی وارث کے لیے وصیت کی ہو تو وارث کے حق میں  کی جانے والی  وصیت دیگر  ورثاء کی اجازت پر موقوف ہوگی، اگر دیگر تمام ورثاء بالغ ہوں اور انہوں نے اس وصیت کے نفاذ کی اجازت دے دی تو اسے نافذ کیا جائے گا، اور جس کے لیے وصیت کی گئی ہے اسے اس وصیت میں سے بھی دیا جائے گا اور اس کا شرعی حصہ بھی اسے ملے گا۔ اور اگر بعض ورثاء بالغ ہوں اور بعض نابالغ، اور بالغ ورثاء وصیت کے نفاذ کی اجازت دے دیں تو ان کے حصے کے بقدر نافذ ہوگی، جب کہ نابالغ ورثاء کو ان کا حصہ پورا دیا جائے گا،اگر اجازت دیں تب بھی نابالغ کی اجازت کا اعتبار نہیں ہو گا، اور اگر ورثاء راضی نہ ہوں تو اس صورت میں اس وارث کو صرف اس کا متعین شرعی حصہ ملے گا اور اس وصیت پر عمل نہیں کیا جائے گا۔

صورت مسئولہ میں والد نے جن بیٹیوں کو زندگی میں پلاٹ وغیرہ دلوائے اور ان کے حوالہ کر دیئے وہ تو اس کے مالک ہو جائیں گی اور وہ والد کی وراثت میں تقسیم نہ ہوگی البتہ جس بیٹی کے لیے والد نے پلاٹ خریدنے کا ارادہ یا وصیت کی تھی لیکن اس کے لیے ابھی خریدا  نہیں تھا تو یہ بیٹی ان پیسوں کی مالک نہیں بنی بلکہ یہ رقم بھی والد کے دیگر ترکہ کےساتھ تمام ورثاء میں تقسیم ہوگی الا یہ کہ قاعدے کے مطابق تمام ورثاء بالغ ہوں اور تمام اپنی رضامندی سے اس وصیت پر عمل کرنا چاہتے ہوں تو اس وصیت پر عمل کرنا جائز ہے اور بیٹی کو کوئی مکان یا پلاٹ دلانا جائز ہوگا۔

الفتاوى الهندية (90/6):

"ثم تصح الوصية لأجنبي من غير إجازة الورثة، كذا في التبيين و لاتجوز بما زاد على الثلث إلا أن يجيزه الورثة بعد موته وهم كبار ولا معتبر بإجازتهم في حال حياته، كذا في الهداية ... ولا تجوز الوصية للوارث عندنا إلا أن يجيزها الورثة."

الدرالمختار وحاشیہ ابن عابدین میں ہے:

"(ولا لوارثه وقاتله مباشرة)  (إلا بإجازة ورثته) لقوله  عليه الصلاة والسلام: «لا وصية لوارث إلا أن يجيزها الورثة» يعني عند وجود وارث آخر كما يفيده آخر الحديث  (وهم كبار) عقلاء فلم تجز إجازة صغير ومجنون وإجازة المريض كابتداء وصية ولو أجاز البعض ورد البعض جاز على المجيز بقدر حصته."

(کتاب الوصایا، ج: صفحہ: 655 و656، ط: ایچ، ایم، سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307100960

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں