بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

وارث اور مورث کے درمیان مشترک مکان کی تقسیم کا شرعی طریقہ


سوال

میرے ابو کا کاروبار تھا،بڑے  بھائی بھی ابو کے ساتھ کاروبار سنبھالنے جاتے تھے، البتہ انہوں نے سرمایہ نہیں لگایا  تھا، ابو نے اس کاروبار کی کمائی سے  چھ  لاکھ روپے میں ایک مکان خریدا، پھر وہ  مکان بیچ  کر  14 لاکھ  روپے کا ایک دوسرا مکان خریدا، جس میں  ایک لاکھ پچھتر ہزار روپے  ایک بیٹے (سائل) کے  ذاتی تھے،جو انہوں نے مکان میں بطورِ شرکت کے ملائے تھے، باقی رقم والد نے  اپنے کاروبار کی کمائی سے دی،اب  وہ مکان سات کروڑ کا ہے،اور ابو نےوصیت کی تھی کہ یہ گھر میرے مرنے کے بعد میرے تین بیٹوں کا  ہوگا،اب والد کا انتقال ہوچکا ہے، ورثاء میں تین بیٹے اور آٹھ بیٹیاں ہیں، والدہ کا انتقال والد سے پہلے ہوچکا تھا، پوچھنا یہ ہے کہ اس مکان میں کس کا کتنا حق ہے؟

 

جواب

صورتِ  مسئولہ  میں مذکورہ  دوسرا گھر خریدتے وقت   ایک  لاکھ  پچھتر  ہزار (175000) روپے اگر واقعتًا  مرحوم کے  ایک بیٹے  (سائل)  کے ذاتی تھےاور  سائل نے بطورِ شرکت کے مذکورہ گھر  میں لگائے تھے،اور باقی رقم والد کے کاروبار  کی کمائی سے ادا کی گئی تھی تو ایسی صورت میں  مذکورہ گھر میں 12.5فیصد حصے کا مالک مرحوم کا بیٹا شاہد(سائل) ہے، اور  باقی حصے کے  مالک سائل کے مرحوم والد تھے، اب سات کروڑ روپے میں سے  8750000روپے کا مالک  مرحوم کا بیٹا  (سائل)  ہے، اور  باقی  رقم (61250000)  روپے   سائل   سمیت  مرحوم کے تمام ورثاء میں ان کے شرعی حصوں کے  مطابق تقسیم ہوگی۔

مرحوم کی  مذکورہ  رقم  (61250000) کی تقسیم کرنے کا شرعی طریقہ  یہ  کہ  سب  سے  پہلے  مرحوم کے ترکہ میں سے حقوق متقدمہ  (تجہیز و تکفین کے اخراجات )  نکالنے کے بعد، مرحوم کے ذمہ اگر کوئی قرض ہو تو اس کی ادائیگی کے بعد  اور  مرحوم نے اگر  کوئی  جائز  وصیت  کی  ہو تو  باقی ترکہ  کے ایک تہائی میں اسے نافذ کرنے کے بعد   باقی  ماندہ ترکہ  کے کل  14 حصے  کرکے  ان کے  ہر ایک بیٹے کو   دو  حصے اور  ہر ایک بیٹی کو ایک حصہ ملے گا۔

صورت ِ تقسیم یہ ہے:

بیٹابیٹابیٹابیٹیبیٹیبیٹیبیٹیبیٹیبیٹیبیٹیبیٹی
22211111111

یعنی 61250000  (چھ کروڑ بارہ لاکھ پچاس ہزار ) روپے میں سے مرحوم کے  ہر ایک بیٹے کو 8750000 (ستاسی لاکھ پچاس ہزار) روپے اور ہر ایک بیٹی کو4375000(تریالیس لاکھ پچھتر ہزار) روپے  ملیں گے۔

نیز  ملحوظ رہے کہ شرعًا وارث کے حق میں وصیت معتبر اور نافذ العمل نہیں ہوتی،اس لیے کہ شریعتِ مطہرہ نے تمام شرعی ورثاء  کے حصے متعین کردیے ہیں، اور  نہ ہی غیر کے مال میں وصیت جائز اور نافذ العمل ہوتی ہے،لہٰذا زیرِ نظر مسئلہ میں والد  کی یہ وصیت کہ "میرے مرنے کے بعد  یہ گھر تین بیٹوں کا ہوگا" شرعًا یہ وصیت نافذ العمل نہیں ہے، بلکہ اس مکان میں  سائل اپنے شراکتی حصے یعنی 12.5  فیصد کا بھی حصہ دار ہےاور والد کے اس مشترکہ مکان میں موجود متروکہ حصے میں سائل سمیت  دیگر تمام شرعی ورثاء حقدار ہیں، ہاں البتہ  مرحوم والد کے تمام شرعی ورثاء  اگر والد کی اس وصیت پر عمل کرنے پر راضی ہوں تو اس وصیت پر عمل کرنا جائز ہوگا۔

بدائع الصنائع میں ہے: 

"الشركة في الأصل نوعان: شركة الأملاك، وشركة العقود وشركة الأملاك نوعان: نوع يثبت بفعل الشريكين، ونوع يثبت بغير فعلهما.

(أما) الذي يثبت بفعلهما فنحو أن يشتريا شيئا، أو يوهب لهما، أو يوصى لهما، أو يتصدق عليهما، فيقبلا فيصير المشترى والموهوب والموصى به والمتصدق به مشتركا بينهما شركة ملك.

(و أما) الذي يثبت بغير فعلهما فالميراث بأن ورثا شيئا فيكون الموروث مشتركا بينهما شركة ملك."

(کتاب الشرکۃ،ج6،ص56،ط:سعید)

الدر مع الرد میں ہے: 

"لا وصیة لوارث إلا أن یجیزها الورثة."

(کتاب الوصایا،ج6،ص656،ط:سعید)

فتاوی شامی  میں ہے: 

"لأنّ الترکة في الاصطلاح ما تركه المیت من الأموال صافیًا عن تعلق حق الغیر."

(کتاب الفرائض،ج6،ص759،ط:سعید)

                 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144304101004

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں