بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

وراثت جب تک شرعی اعتبار سے تقسیم نہیں ہوتی تب تک ورثاء کا حق اس کے ساتھ متعلق رہتا ہے


سوال

کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین درجِ ذیل مسئلہ کےبارے میں کہ 1993 میں میرے والد صاحب کاروباری طور پر مقروض ہو گئے تو میرے چھوٹے بھائی نے مجھے یہ کہہ کر کہ میں تمہاری سپورٹ کروں گا تم ابو کی کاروبار میں مدد کرو،(کیونکہ چھوٹے بھائی کا اپنا ایک علحٰدہ گارمنٹس کاروبار تھا) تو میں ابو کے مٹھائی کے کاروبار میں سپورٹ کے لیے شامل ہو گیا، ایک اندازے سے اس وقت کاروبار میں موجود سامان اگر 1 لاکھ کا تھا تو قرضہ تقریباََ 4 لاکھ تھا، لیکن اس کاروبار سے بنائے گئے اثاثے بھی موجود تھے، یہ ایک مشکل وقت تھا، اس میں چھوٹے بھائی نے مجھے ایک عدد گیس کا میڑ اور ایک عدد شوکیس لگوا کر دیا، اور ایک دو مرتبہ گھی، چینی اور میدہ بھی لے کر دیا، جیسے ہی ابو کا کاروبار سنبھلا تو میں نے اسی کاروبار کے نفع سے ابو کا سارا قرضہ اتارا، اور جو پیسے چھوٹے بھائی نے لگائے تھے وہ بھی اس کو واپس کیے، اور تقریباََ 5 لاکھ روپیہ ابو کی زندگی میں ہی ابو کے اسی مٹھائی کے کاروبار کے نفع سے چھوٹے بھائی کے گارمنٹس کے کاروبار میں انویسٹ کیے، میرے بھائی کے کاروبار میں مزید لوگوں کی بھی شراکت داری تھی، 2004 میں میرے والد صاحب وفات پا گئے، والد صاحب کا کاروبار میں نے ہی سنبھالے رکھا، اور ابو کے رکھے گئے کاری گروں کو بھی ساتھ رکھا اور ان کی سربراہی کرتا رہا، اور میں نے ابو کا رکھا گیا اس کاروبار کا نام ــشاہی جلیبی اینڈ سویٹس بھی اب تک قائم رکھا ہوا ہے، ابو کی وفات کے بعد تقریباََ 2007 میں میں نے اسی مٹھائی کے کاروبار کے نفع سے ایک عدد پلاٹ جو کہ اس وقت تقریباََ 6 لاکھ کا تھا خود کی ملکیت میں لیا اور اپنے نام کروا لیا، 2008 میں چھوٹے بھائی کا گارمنٹس کا کاروبار اس کی غفلتوں کی وجہ سے مکمل طور پر گھاٹے میں آکر ختم ہو گیا، کاروبار ختم ہونے سے اب 2023 تک اس کی کوئی جائیداد نہیں ہے، اس کے بر عکس 1کروڑ کا مقروض ہے، اس کے مقروض ہونے کے بعد میں نے اس کے ساتھ مٹھائی کے کاروبار کے نفع سے کافی مالی تعاون کیا تقریباََ 2010 میں اس نے مجھ سے جھگڑا کیا کہ مٹھائی کا کاروبار ابو کا تھا اور ابو نے خود کے سرمائے سے ہی شروع کیا تھا اور اب یہ کاروبار ہم سب بہن بھائیوں کا ہے، اس پر میں نے رحیم یار خان کے مقامی علماءکرام سے مشاورت کی جس پر انھوں نے کہا کہ تمہارے ابو جو سامان چھوڑ گئے تھے صرف اسکی وراثت ہوگی کیونکہ دکانیں کرائے کی ہے، اس وقت تک میں اسی مٹھائی کے کاروبار کی بچت سے اس کی اس کاروبار میں موجود سامان سے زیادہ مدد کر چکا تھا، لیکن پھر بھی چھوٹے بھائی کے کاروبار کے شراکت داروں نے مجھے تنگ کیا تو میں نے ان کو بھی اسی کاروبار کی بچت سے پیسے دیے اور اسی کاروبار کی بچت سے اپنے بھی اثاثے بناتا رہا، 18 سال میں میں نے اس کا تقریباََ 25 لاکھ کا قرضہ اتارا، جب کہ تقریباََ 15 لاکھ اس کی گھریلو پریشانیوں کے باعث اب تک مدد کی یعنی گزشتہ 18 سال میں کل 40 لاکھ اسی مٹھائی کے کاروبار کی بچت سے چھوٹے بھائی پر خرچ کیے اور میں نے خود اسی کاروبار کی آمدن سے اب تک تقریباََ 14 کروڑ کے اثاثے بنائے ہیں، جو کہ میرے نام ہیں۔ ایک عدد مکان جو میرے والد صاحب کے نام ہے اس کی مالیت 2023 میں تقریباََ 25 لاکھ کی ہے اس میں میرا چھوٹا بھائی رہتا ہے، میں نے کہا کہ یہ مکان بھی تم رکھ لو، جس پر وہ کہتا ہے کہ یہ مکان ابو کے تمام ورثاء کا ہے جب تک حساب نہیں ہوگا میں یہ مکان نہیں رکھوں گا، اس نے ایک عدد کمرشل دکان جو کہ والدہ کی ملکیت تھی وہ بھی اس نے والدہ کی زندگی میں والدہ کی اجازت سے اپنے 10 لاکھ قرضے میں دےدی، جو کہ اب 2023 میں تقریباََ 1 کروڑ کی ہے، یہ آئے دن مجھے تنگ کرتا ہے، کہتا ہے کہ مٹھائی کے کاروبار سے مجھے میرا شرعی حصہ دو، میں اسے کہتا ہوں مٹھائی کے کاروبار والی دکان اور کارخانہ کرائے پر تھا جو کہ میں نے خرید کر اب اپنے نام کروا لیا ہے، اس میں تمہارا کوئی حصہ نہیں ہے، میں نے اس کو کچھ پیسوں کی ہیلپ کرنے کا کہا تو وہ کہتا ہے کہ آپ جو کچھ اس مٹھائی کے کاروبار سے میری ہیلپ کرتے ہو یا خود اس سے جو فائدہ حاصل کرتے ہو اس میں ابو کے تمام ورثاء کا حق ہے اگر اسی طرح رہا تو ہمیشہ ابو کے ورثاء کا اس کاروبار میں حصہ جاری رہے گا، اور وہ یہ کہتا ہے کہ رحیم یار خان کے علماءکرام نہیں سمجھتے کہ کاروبار اور دکان دو مختلف چیزیں ہیں، اس لیے کہتے ہیں کہ دکانین کرائے کی تھی، لہٰذا نفع میں وراثت جاری نہیں ہوگی، اور چھوٹا بھائی کہتا ہے کہ میں نے کراچی کے علماءکرام سے مشورہ کیا ہے اور میرے پاس فتاویٰ بھی موجود ہیں کیونکہ ان کے پاس ایسے کیس آتے رہتے ہیں تو آپ بھی کراچی کے علماء کرام سے مشورہ کر لیں کہ میرا حق بنتا ہے یا نہیں، اگر کراچی کے علماءکرام نے یہ فتویٰ دے دیا کہ میرا حق نہیں بنتا تو میں آپ کو تنگ نہیں کروں گا، میرے اس بھائی کے علاوہ اور کوئی بہن بھائی مجھ سے حصہ نہیں مانگتے، میں ان کو بھی اسی مٹھائی کے کاروبار کی بچت سے مالی سپورٹ کرتا ہوں، وہ یہ کہتا ہے کہ میں نے کبھی بھی یہ کہہ کر آپ سے پیسے نہیں لیے کہ اس رقم کے بعد میرا والد کے کاروبار یا جائیداد میں حصہ ختم ہو جائے گا، اور نہ آپ نے کبھی بھی میری سپورٹ یہ کہہ کر کی کہ یہ تمہارا وراثتی حصہ ہے، پھر میرا حصہ ختم کیسے ہو گیا؟ وہ مجھے الٹی سیدھی مثالیں دیتا ہے کہتا ہے کہ 10 روپے حق مہر دینے سے نامحرم عورت بیوی بن جاتی ہے، اور 10 لاکھ ویسے ہی نا محرم عورت کو کھلانے سے وہ عورت نامحرم ہی رہتی ہے، کبھی کہتا ہے کہ سارا سال خیرات کرنے سے زکوٰۃ ادا نہیں ہوتی، بلکہ زکوٰۃ حساب کر کے اور زکوٰۃ کی نیت کر کے دینی پڑتی ہے، رہنمائی فرما دیں کہ کیا چھوٹے بھائی کی اسی کاروبار کی بچت سے اتنی زیادہ سپورٹ کرنے کے باوجود اپنے حق کا مطالبہ کرنا کیا درست ہے؟ جب کہ اس کاروبار پر ابو کی مدد صرف میں نے کی اور کاروبار کو نفع میں لا کر کاروبار کا قرض بھی اتارا، اور جائیداد بھی بنائیں، کیا باقی ورثاء کا اس مٹھائی کے کاروبار میں شرعی حق ابھی بھی باقی ہے یا نہیں؟

وضاحت:

بیٹے کاوالد کے  کاروبار میں والد کا ساتھ دینے پر کوئی اجرت یا کاروبار میں کوئی  حصہ وغیرہ  کچھ بھی طے نہیں ہوا تھا۔

جواب

صورت مسئولہ میں اگر مٹھائی کے کاروبار کی بنیاد والد نے رکھی تھی پھر بیٹے نے والد کے ساتھ مل کر اسی کاروبار کو آگے بڑھایا اور اسی کے منافع سے قرض اتارا تو یہ کاروبار والد ہی کا تھا، ان کی وفات کے بعد تمام ورثاء میں تقسیم کرنا ضروری تھا، لیکن سائل نے یہ کاروبار ورثاء میں تقسیم نہیں کیا، بلکہ اپنے استعمال میں رکھا، اور اس کے منافع سے دکانیں پلاٹ وغیرہ مختلف جائیدادیں بنائیں، تو چوں کہ اس کاروبار کے تقسیم نہ ہونے کی وجہ سے اس کے منافع تمام ورثاء کے مشترکہ تھے، لہذا اس منافع سے جتنی بھی  جائیدادیں بنائی گئیں وہ سب ورثاء کے درمیان مشترک شمار ہوں گی، اور تمام ورثاء کے درمیان ان کے شرعی حصوں  کے اعتبار سے تقسیم کرنا ضروری ہے، نیز جس طرح بیٹوں کا حق ہے اسی طرح بیٹیوں کا بھی اس ترکہ میں حق ہے، اب تمام ورثاء باہمی رضامندی سے مل بیٹھ کر کسی فیصلے پر پہنچ جائیں تاکہ کسی کی دل آزاری نہ ہو، اور اگر مفاہمت کی کوئی صورت نہ بن سکے تو پھر شرعاً ہر وارث کا جو حصہ بنتا ہے وہ اسے دیا جائے گا ۔

اور جو رقم آپ نے ورثاء پر خرچ کی ہے چونکہ اس میں کسی قسم کا معاہدہ نہیں ہوا تھا کہ یہ والد کی میراث کا حصہ ہے اس لیے وہ میراث کی ادائیگی نہیں کہلائے گی، ہاں اگر مفاہمت کی صورت بنتی ہے تو ورثاء بھی اس خرچ کا اقرار کرتے ہوں اور اپنے حصوں سے منہا کرنےپر راضی ہوں تو ان کے حصے سے منہا کر کے بقیہ حصہ دے دیا جائے ۔

فتاوی شامی میں ہے:

"‌الارث ‌جبري لا يسقط بالاسقاط."

(‌‌‌‌كتاب الدعوى، باب التحالف، ج: 8، ص: 116، ط: دار الفکر بیروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144412101364

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں