بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ورثاء میں صرف ایک بھائی ہو تو ترکہ کی تقسیم


سوال

زید فوت ہوا اس کا ایک بھائی زندہ ہے اور ایک فوت شدہ بھائی اور تین فوت شدہ بہنوں کی اولاد موجود ہے، تو ان کے درمیان زید کے ترکہ کی تقسیم کس طرح ہوگی؟

جواب

صورت مسئولہ میں اگر زید کے انتقال کے وقت اس کے والدین، دادا، بیوی بچے کوئی ایک بھی نہیں ہیں اور زندہ بھائی کے علاوہ کوئی اور بھائی بہن بھی نہیں  تو زید کا کل ترکہ زید کے زندہ بھائی کو ملے گا، زندہ بھائی کی موجودگی میں مرحوم بھائی اور بہنوں کی اولاد شرعاً زید کے ترکہ میں حصہ دار نہیں ہے، تاہم  اگر زید کازندہ بھائی اپنے حصے کے ترکہ میں سے اپنے مرحوم بھائی بہن کے اولاد کو خوشی  کے ساتھ کچھ دینا چاہے تو باعث ثواب ہے۔

الدرالمختار  میں ہے:

"(يحوز العصبة بنفسه وهو كل ذكر) فالأنثى لا تكون عصبة بنفسها بل بغيرها أو مع غيرها (لم يدخل في نسبته إلى الميت أنثى) فإن دخلت لم يكن عصبة كولد الأم فإنه ذو فرض وكأبي الأم وابن البنت فإنهما من ذوي الأرحام (ما أبقت الفرائض) أي جنسها (وعند الانفراد يحوز جميع المال) بجهة واحدة. ثم العصبات بأنفسهم أربعة أصناف جزء الميت ثم أصله ثم جزء أبيه ثم جزء جده (ويقدم الأقرب فالأقرب منهم) بهذا الترتيب فيقدم جزء الميت (كالابن ثم ابنه وإن سفل ثم أصله الأب ويكون مع البنت) بأكثر (عصبة وذا سهم) كما مر (ثم الجد الصحيح) وهو أبو الأب (وإن علا) وأما أبو الأم ففاسد من ذوي الأرحام (ثم جزء أبيه الأخ) لأبوين (ثم) لأب ثم (ابنه) لأبوين ثم لأب (وإن سفل) تأخير الإخوة عن الجد وإن علا قول أبي حنيفة وهو المختار للفتوى".

وفي حاشيته لابن عابدين:

"(قوله: ويقدم الأقرب فالأقرب إلخ) أي الأقرب جهة ثم الأقرب درجة ثم الأقوى قرابة فاعتبار الترجيح أولا بالجهة عند الاجتماع، فيقدم جزؤه كالابن وابنه على أصله كالأب وأبيه ويقدم أصله على جزء أبيه كالإخوة لغير أم وأبنائهم، ويقدم جزء أبيه على جزء جده كالأعمام لغير أم وأبنائهم وبعد الترجيح بالجهة إذا تعدد أهل تلك الجهة اعتبر الترجيح بالقرابة، فيقدم الابن على ابنه والأب على أبيه والأخ على ابنه لقرب الدرجة، وبعد اتحاد الجهة والقرابة يعتبر الترجيح بالقوة، فيقدم الأخ الشقيق على الأخ لأب، وكذا أبناؤهم، وكل ذلك مستفاد من كلام المصنف، وصرح به العلامة الجعبري حيث قال:

"فبالجهة التقديم ثم بقربه ... وبعدهما التقديم بالقوة اجعلا."

(کتاب الفرائض، فصل فی العصبات، ج:6،ص:774،ط:سعید)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144402100804

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں