بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

وقتی طور پر نکاح کرنے کا حکم


سوال

اگر کوئی لڑکا اور لڑکی ایک دوسرے کو چاہتے ہیں اور ان کی فون پر بات ہوتی ہے تو  اس وجہ سے وہ دونوں گناہ گار ہوتے ہیں، تو کیا وہ دونوں فرضی طور پر نکاح کر سکتے ہیں، یعنی جب تک دوسری جگہ ان کا نکاح نہیں ہوجاتا، اس وقت تک وہ نکاح برقرار رکھیں اور جب دوسری جگہ نکاح ہورہا ہو، تو پہلے نکاح کو توڑدیں؟تو کیا وہ دونوں اس طرح کرسکتے ہیں  تاکہ فون پر بات کرنے سے وہ گناہ گار نہ ہوں؟

جواب

واضح رہے کہ شریعتِ  مطہرہ میں میاں بیوی کے درمیان نکاح سے حاصل ہونے والا تعلق صرف جنسی خواہش کی تکمیل نہیں،بلکہ نکاح  جسم وروح کا باہمی رشتہ ہے، اس مقدس رشتے میں میاں بیوی ایک دوسرے سے  ہمیشہ وابستہ رہنے اور ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے کا عہد وپیمان کرتے ہیں،میاں بیوی کے اس قدر گہرے تعلق کو قرآنِ کریم نے یوں بیان کیا ہے کہ زوجین کو ایک دوسرے کا لباس قرار دیاہے۔ چنانچہ قرآنِ کریم میں ہے:

"{هُنَّ لِباسٌ لَكُمْ وَأَنْتُمْ لِباسٌ لَهُنَّ}."[سورۃ البقرہ،الایۃ:187]

ترجمہ: "وہ تمہارے (بجائے) اوڑھنے بچھونے (کے) ہیں اور تم ان کے (بجائے) اوڑھنے بچھونے (کے) ہو۔"

اور شریعِتِ مطہرہ نے نکاح کے  رشتہ کو   عفت و پاک دامنی کا سبب اور گناہوں سے بچنے کا ذریعہ بنایا ہے،اسی وجہ سے  نکاح کو دو تہائی دین کہا گیا ہے،  چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: "جس نے نکاح کرلیا اس نے دو تہائی دین جمع کرلیا۔"

نیز قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ نے نکاح کا مقصد یہ بیان فرمایاہے:

"{مُحْصَنَاتٍ غَیْرَ مُسَافِحَاتٍ وَّلَا مُتَّخِذَاتِ اَخْدَان} [النساء:25] {مُحْصِنِیْنَ غَیْرَ مُسَافِحِیْنَ وَلَا مُتَّخِذِيْ اَخْدَان}." [المائدة:5]  

یعنی نکاح کرو اس حال میں کہ تم پاک دامنی چاہتے ہو، شہوت رانی مقصود نہ ہو اور نہ ہی چوری چھپے یاری لڑانا۔ اگر نکاح کے وقت شہوت پوری کرنا ہی غرض ہو تو یہ شرعی نکاح کے مقاصد کے خلاف ہے، جسے نفلی عبادت سے افضل قرار دیا گیا ہے۔

نکاح کے مقاصد کے حصول اور نوعِ  نسانی کی بقا  کے لیے ضروری ہے کہ  میاں بیوی  کا آپس میں تعلق دائمی ہو، وقتی نہ ہو، بلکہ عارضی شادی مذہبِ اسلام میں حرام ہے، اسی بات کے پیشِ نظر  نکاحِ متعہ اور موقت کو  ہمیشہ کے لیے ناجائز اور حرام قرار دیا ہے۔

لہٰذا صورتِ مسئولہ میں عارضی طور پر نکاح کرنا اور دوسرا رشتہ ہوجانے کی صورت میں اس نکاح کو ختم کردینا جائز نہیں ہے، لڑکا اور لڑکی دونوں ایک دوسرے کے لیے نامحرم ہیں، اس لیے انہیں  چاہییے کہ آپس میں غیر ضروری تعلقات رکھنے سے اجتناب کریں اور اگر واقعی وہ دونوں ایک دووسرے سے نکاح کر کےاس نکاح کو برقرار رکھتے ہوئے  عفت اور پاکدامنی کی زندگی گزارنا چاہتے ہوں، تو اپنے گھر کے بڑوں کو اعتماد میں لے کر آپس میں نکاح کر کےعفت کے ساتھ زندگی گزاریں۔

صحیح مسلم میں ہے:

"عن الربيع بن سبرة عن أبيه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم نهى يوم الفتح عن متعة النساء."

 (كتاب النكاح،باب نكاح المتعة وبیان أنه أبیح ... الخ،ج:1،ص:452،ط:قدیمی کتب خانه)

تفسیر مظہری میں ہے:

"ولما كان الرجل والمرأة يعتنقان ويشتمل كل منهما على صاحبه شبه باللباس- او لان اللباس كما يستر صاحبه كذلك يكون كل واحد منهما لصاحبه ستراعما لا يحل ، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم من تزوج فقد احرز ثلثى دينه."

(سورۃ البقرۃ، ج:1، ص:203، ط:مكتبة الرشدية)

روح المعانی میں ہے:

"ولما كان الرجل والمرأة يتعانقان ويشتمل كل منهما على صاحبه شبه كل واحد بالنظر إلى صاحبه باللباس أو لأن كل واحد منهما يستر صاحبه ويمنعه عن الفجور، وقد جاء في الخبر: من ‌تزوج ‌فقد ‌أحرز ‌ثلثي ‌دينه."

(سورة البقرة، ج:1، ص:461، ط:دار الكتب العلمية)

عنایہ شرح الہدایہ میں ہے:

"(والنكاح المؤقت باطل مثل أن يتزوج امرأة بشهادة شاهدين إلى عشرة أيام ) .

والذي يفهم من عبارة المصنف في الفرق بينهما شيئان : أحدهما وجود لفظ يشارك المتعة في الاشتقاق كما ذكرنا آنفا في نكاح المتعة .

والثاني شهود الشاهدين في النكاح الموقت مع ذكر لفظ التزويج أو النكاح وأن تكون المدة معينة ( وقال زفر هو صحيح لازم ) لأن التوقيت شرط فاسد لكونه مخالفا لمقتضى عقد النكاح ، والنكاح لا يبطل بالشروط الفاسدة ( ولنا أنه أتى بمعنى المتعة ) بلفظ النكاح لأن معنى المتعة هو الاستمتاع بالمرأة لا لقصد مقاصد النكاح وهو موجود فيما نحن فيه لأنها لا تحصل في مدة قليلة ( والعبرة في العقود للمعاني ) دون الألفاظ ؛ ألا ترى أن الكفالة بشرط براءة الأصيل حوالة والحوالة بشرط مطالبة الأصيل كفالة ."

(ج:4،ص:394 )

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144412101237

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں