رمضان میں اگر مسجد سے فجر کی اذان وقت سے ایک یا دو منٹ پہلے دے دی گئی ہو تو کیا اس مسجد میں ادا کی گئی جماعت کی نماز قبول ہو جائے گی یا اس نماز کو بعد میں دھرانا پڑے گا؟
نماز کے لیے اذان دینا سنت ہے، اوراذان اس وقت دی جائے گی جب نماز کا وقت داخل ہوجائے، نماز کا وقت داخل ہونے سے پہلے اذان دینا معتبر نہیں؛ وقت داخل ہونے کے بعد دوبارہ اذان دینی ہوگی؛ اس لیے اگر وقت سے پہلے اذان دے کر نماز پڑھی جائے گی،تو نماز ہوجائے گی ، دہرانے کی ضرورت نہیں ہوگی، البتہ اذان کی سنت ترک کرنے والے ہوں گے؛ اس لئے آئندہ وقت پر اذان دے۔
بدائع الصنائع میں ہے:
"وأما بيان وقت الأذان والإقامة فوقتهما ما هو وقت الصلوات المكتوبات، حتى لو أذن قبل دخول الوقت لا يجزئه، ويعيده إذا دخل الوقت في الصلوات كلها في قول أبي حنيفة ومحمد. وقد قال أبو يوسف: أخيرا لا بأس بأن يؤذن للفجر في النصف الأخير من الليل، وهو قول الشافعي".
(بدائع الصنائع: كتاب الصلاة، فصل بيان وقت الأذان والإقامة (1/ 154)،ط. دار الكتب العلمية، الطبعة: الثانية، 1406هـ = 1986م)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144209200335
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن