بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

وقت پر قسطیں ادا کرنے کی صورت میں بجاج فائننس اور کریڈٹ کارڈ استعمال کرنے کا حکم


سوال

بجاج فیانس اور کریڈٹ کارڈ کا استعمال اس طرح  کہ تمام قسطوں کو مکمل طور پر وقت پر ادا کیا جائے تو کیا اس طرح استعمال کرنا صحیح ہے ؟

جواب

کریڈٹ کارڈبنوانا اور اس کا استعمال درست نہیں ہے، اس لیے کہ کسی  معاملے کے حلال وحرام ہونے  کی بنیاد درحقیقت وہ معاہدہ ہوتا ہے جو فریقین کے درمیان طے پاتا ہے، کریڈٹ کارڈ لینے والا کریڈٹ کارڈ جاری کرنے والے اداروں کے ساتھ یہ معاہدہ کرتا ہے کہ اگر مقررہ مدت میں لی جانے والی رقم واپس نہ کر سکا تو ایک متعین شرح کے ساتھ  جرمانہ کے نام پر سود ادا کروں گا۔ شریعت میں  جس طرح سود لینا حرام ہے، اسی طرح اس کا معاہدہ کرنا بھی شرعاً حرام ہے۔ اس بنیاد پر بالفرض اگر کریڈٹ کارڈ لینے والا شخص لی گئی رقم مقررہ مدت میں واپس بھی کردے تو معاہدہ سودی ہونے کی وجہ سے اصولی طور پر کریڈٹ کارڈ کا بنوانا اور استعمال ناجائز ہے  اور اگر مقررہ مدت کے بعد سود کے ساتھ رقم واپس کرتا ہے تو اس کے ناجائز ہونے میں کسی قسم کا شبہ نہیں ہے، اس لیے ادائیگی کی صورت کوئی بھی ہو اس سے قطع نظر نفسِ معاہدہ کے سودی ہونے کی وجہ سے کریڈٹ کارڈ بنوانا اور اس کا کسی بھی کام میں استعمال کرنا  ناجائز ہے۔

باقی بجاج فائننس کے مالی معاملات کا مکمل طریقہ کار لکھ کر دوبارہ سوال ارسال کردیں؛ تاکہ اس کے متعلق بھی جواب دیا جاسکے۔

ہماری اجمالی معلومات کے مطابق بجاج فائننس بھی اپنے صارف کے ساتھ ’’حوالہ‘‘ والا معاملہ کرتا ہے، یعنی اپنے صارف کی طرف سے اس کا قرضہ ادا کردیتا ہے اور پھر بعد میں قسطوں میں اپنے صارف سے وصول کرلیتا ہے، لیکن بجاج فائننس کے ساتھ  کیے جانے والے معاہدہ میں بھی کریڈٹ کارڈ کی طرح یہ شق شامل ہوتی ہے کہ اگر کوئی بھی قسط اپنے وقت پر ادا نہ کی گئی تو اس کا جرمانہ بھرنا پڑے گا  ، چنانچہ جس طرح کریڈٹ کارڈ کا استعمال سودی معاہدہ کے ساتھ لازم ہونے کی وجہ سے مطلقًا ناجائز ہے،  اسی طرح بجاج فائننس کے ساتھ بھی قرض کی ادائیگی اور حوالہ کا سودی معاہدہ کرنا جائز نہیں ہے،  کیوں کہ بجاج فائننس کے استعمال کی صورت میں بھی چاہے وقت پر قسط جمع کرادی جائے، تب بھی ابتداءً سودی اور غیر شرعی معاہدہ کو قبول کرنے کی وجہ سے اس کا استعمال ناجائز اور حرام ہی ہوگا۔

مزید تفصیل کے لیے درج ذیل لنک پر فتویٰ ملاحظہ کیجیے:

بجاج فائنینس سے قسطوں پر اشیاء لینا

فتاوی شامی میں ہے:

"وفي الأشباه: كلّ قرض جرّ نفعًا حرام، فكره للمرتهن سكنى المرهونة بإذن الراهن.

(قوله: كلّ قرض جر نفعًا حرام) أي إذا كان مشروطًا كما علم مما نقله عن البحر.

ثم رأيت في جواهر الفتاوى إذا كان مشروطًا صار قرضًا فيه منفعة وهو ربا وإلا فلا بأس به اهـ ما في المنح ملخصًا وتعقبه الحموي بأن ما كان ربًا لايظهر فيه فرق بين الديانة والقضاء على أنه لا حاجة إلى التوفيق بعد الفتوى على ما تقدم أي من أنه يباح."

المبسوط للسرخسی میں ہے:

’’وإذا عقد العقد علی أنه إلی أجل بکذا وبالنقد بکذا أو (قال:)  إلی شهر بکذا وإلی شهرین بکذا فهو فاسد؛ لأنه لم یعامله علی ثمن معلوم ولنهي النبي ﷺ یوجب شرطین في بیع، وهذا هو تفسیر الشرطین في البیع، ومطلق النهي یوجب الفساد في العقد الشرعیة، وهذا إذا افترقا علی هذا ...  فإن کان یتراضیان بینهما ولم یتفرقا حتی قاطعه علی ثمن معلوم وأتما العقدَ فهو جائز؛ لأنهما ما افترقا إلا بعد تمام شرط صحة العقد الخ‘‘  (المبسوط للسرخسي،ج:۸،ص:۱۳)

بدائع الصنائع میں ہے:

’’وکذا إذا قال: بعتك هذا العبد بألف درهم إلی سنة أو بألف وخمسمأة إلی سنتین؛ لأن الثمن مجہول ... فإذا علم ورضي به جاز البیع؛ لأن المانع من الجواز هو الجهالة عند العقد وقد زالت في المجلس وله حکم حالة العقد، فصار کأنه کان معلوماً عند العقد وإن لم یعلم به حتی إذا افترقا تقرر الفساد‘‘. (بدائع الصنائع ،ج:۵،ص:۱۵۸)

فتاویٰ شامی میں ہے:

’’وفي شرح الآثار: التعزیر بأخذ المال کان في ابتداء الإسلام ثم نسخ. والحاصل أن المذهب عدم التعزیر بأخذ المال‘‘. (فتاویٰ شامی، ج:۳، ص:۶۱-۶۲،ط:سعید) 

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144206201232

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں