بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

واقف کا مدرسہ کے لیے وقف کیے گئے مکان کو استعمال کرنے کا حکم


سوال

میرے بڑے بھائی کی ایک بلڈنگ ہے ،جسے بہت پہلے مدرسہ کے لیے وقف کرنے کا ارادہ تھا،میرے بھائی کی ایک عالمِ دین سے دوستی تھی تو پانچ ماہ پہلے میرے بھائی نے مدرسہ کی نیت سے  مکان کی چابی  ان مولانا صاحب کے حوالے کردی ،اب صورتِ حال یہ ہے کہ میرے بھائی کا کاروبار ختم ہوگیا اور ان کے حالات خراب ہونے لگے،بلڈنگ میں اب تک کوئی مدرسہ قائم نہیں ہوا،مکان ویسے خالی پڑا ہے،میرے بھائی نے سوچا کہ کیوں نہ میں یہ بلڈنگ کرایہ پر دے دوں،جب ان مولانا صاحب سے یہ بات کی تو وہ کہنے لگے کہ اب آپ کا اس مکان سے کوئی تعلق نہیں، نہ آپ اس کو کرایہ پر دے سکتے ہیں ،نہ ہی اس میں رہائش اختیار کرسکتے ہیں،اب آپ کو یہ بلڈنگ مدرسہ کے نام کرنی پڑے گی،جب کہ میرے بھائی بہت پریشان ہیں ،ان کی تین جوان بیٹیاں ہیں جن کی شادی کےمسائل ہیں اور ایک ہی بیٹا ہے ،اب سوال یہ ہے کہ کیا میرے بھائی کے لیے اس کا استعمال رہائش کے طور پر جائز ہےیا نہیں؟کیا بھائی اس کو کرایہ پر دے سکتاہے یا نہیں؟

وضاحت:بھائی نے یہ مکان ان مولانا صاحب کو  وقف کرتے ہوئے زبانی طور پر وقف کا لفظ بولا  تھا،تحریری طور پر نہیں لکھا گیا۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں جب سائل کے بھائی نے اپنامکان مدرسہ کے لیے وقف کردیا ،اور متولی  مدرسہ کے حوالے بھی کردیا تو اس سے وقف  مکمل ہوگیا،اور مکان سائل کے بھائی کی ملکیت سے نکل کر اللہ تعالیٰ کی ملکیت میں داخل ہوگیا اور اب سائل کے بھائی نے وقف کرتے وقت اس سے فائدہ اٹھانے کی شرط بھی نہیں لگائی تھی، لہٰذا اب بھائی کے لیے  اس مکان کو کرایہ پر دینا ،اس میں رہائش اختیار کرنا یا کسی قسم کا نفع حاصل کرنا جائز نہیں ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"فإذا تم ولزم لا يملك ولا يملك ولا يعار ولا يرهن."

(کتاب الوقف،351،352/4،ط:ایچ ایم سعید)

فتح القدیرمیں ہے:

"و عندهما: حبس العين على حكم ملك الله تعالى؛ فيزول ملك الواقف عنه إلى الله تعالى على وجه تعود منفعته إلى العباد؛ فيلزم، و لايباع و لايوهب و لايورث."

( کتاب الوقف ،203/6، ط: دار الفکر)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وعندهما حبس العين على حكم ملك الله تعالى على وجه تعود منفعته إلى العباد فيلزم ولا يباع ولا يوهب ولا يورث كذا في الهداية."

(کتاب الوقف،الباب الاول،350/2،ط:مکتبہ رشیدیہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144401101054

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں