بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

واقف کا جنازہ گاہ کے لیے زمین کا وقف شرط کے ساتھ معلق کرکے شرط پورا نہ ہونے پر زمین واپس لینا


سوال

ایک خاتون نے اپنی زندگی میں دو کنال زمین جناز ہ گاہ کے لیے اس شرط کے ساتھ وقف کی کہ اگر دو سال کے اندر گاؤں والے مل کر چار دیواری کروا لیں تو ٹھیک، ورنہ یہ زمین واپس لے لوں گی، لیکن گاؤں والے چار دیواری نہ کروا سکے، اور ان دو سالوں میں چند جنازے بھی اس جگہ پر پڑھے گئے،  اس کے بعد وہ جگہ کافی دیر ویسے ہی پڑی رہی،  اس کے بعد عورت نے یہ زمین واپس اپنی ملکیت میں لے لی، لیکن اس جگہ پر کوئی قبضہ وغیرہ نہیں کیا خالی میدان ہی رہا، اب کچھ عرصہ پہلے اس خاتون نے اپنے کسی عزیز کو 8 مرلے اس جگہ میں سے دے کر ملکیت بھی دے دی،  لیکن رجسڑی وغیرہ نہیں کروائی،  اب عورت کا انتقال ہو چکا ہے،  اور عورت کے بیٹے ان 8 مرلوں کی رجسٹری اس بندے کے نام منتقل کرنا چاہتے ہیں،  دریافت طلب امر یہ ہے کہ وقف بالشرط کی حیثیت کیا ہے؟  آیا شرط پوری نہ ہونے پر کیا واقف ،وقف شدہ زمین کو اپنی ملکیت میں واپس لے سکتا ہے؟  اب جس بندے کو اس وقف شدہ زمین میں سے 8 مرلے اس عورت نے دیے ہیں اس بندے کے لیے کیا حکم ہے ؟

جواب

واضح رہے کہ وقف میں ایسی شرط لگانا جس میں وقف کی مصلحت ہو تو اس سے وقف باطل نہیں ہوتا، بلکہ صحیح اور درست ہوتا ہے۔

لہٰذا صورتِ مسئولہ میں مذکورہ خاتون نے اپنی   مملوکہ زمین کو  جنازہ گاہ کے لیے  وقف کرکے یہ کہا کہ ’’اگر دو سال کے اندر گاؤں والے مل کر چار دیواری کھڑی کروالیتے ہیں تو ٹھیک، ورنہ میں یہ زمین واپس لے لوں گی‘‘، چوں کہ چار دیواری کھڑی کرنے کی شرط شئی موقوفہ کی مصلحت کے لیے تھی تو یہ وقف درست تھا، لیکن اب گاؤں والوں کے چار دیواری کھڑی نہ کرنے پر اس خاتون کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ اپنی موقوفہ جگہ واپس لے لے، اور اس نے موقوفہ زمین میں سے جو آٹھ مرلے کی جگہ اپنے عزیز کو دی ہے، اس سے واپس لے کر جگہ کو جنازہ گاہ ہی کے استعمال میں لگائے۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(ولو) كان الموقوف (دارا فعمارته على من له السكنى) ولو متعددا من ماله لا من الغلة إذ الغرم بالغنم درر. (ولم يزد في الأصح) يعني إنما تجب العمارة عليه بقدر الصفة التي وقفها الواقف."

(كتاب الوقف، مطلب في قطع الجهات لأجل العمارة، ج: 4، ص: 373، ط: دار الفكر بيروت)

موسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ میں ہے:

"الوقف قربة اختيارية يضعها الواقف فيمن يشاء وبالطريقة التي يختارها، وله أن يضع من الشروط عند إنشاء الوقف ما لا يخالف حكم الشرع، والشروط التي يضعها الواقف يجب الرجوع إليها، ولا يجوز مخالفتها إذا لم تخالف الشرع أو تنافي مقتضى الوقف؛ إذ إن شرط الواقف كنص الشرع كما يقول الفقهاء.

ففي حاشية ابن عابدين: شرائط الواقف معتبرة إذا لم تخالف الشرع وهو مالك، فله أن يجعله ماله حيث شاء ما لم تكن معصية، وله أن يخص صنفا من الفقراء، ولو كان الوضع في كلهم قربة، (وفي الشرح الكبير للدردير:: واتبع وجوبا شرط الواقف إن جاز شرعا، فإن كان غير جائز لم يتبع.

ونص الشافعية على أن الأصل أن شرائط الواقع مرعية ما لم يكن فيها ما ينافي الوقف.

ونص الحنابلة على ما قاله الشيخ تقي الدين ابن تيمية: الشروط إنما يلزم الوفاء بها إذا لم تفض إلى الإخلال بالمقصود الشرعي، ولا يجوز المحافظة على بعضها مع فوات المقصود الشرعي.

ويقسم ابن القيم شروط الواقفين إلى أربعة أقسام: شروط محرمة في الشرع، وشروط مكروهة لله سبحانه وتعالى ورسوله صلى الله عليه وسلم، وشروط تتضمن ترك ما هو أحب إلى الله ورسوله، وشروط تتضمن فعل ما هو أحب إلى الله ورسوله، فالأقسام الثلاثة الأولى لا حرمة لها ولا اعتبار، والقسم الرابع هو الشرط المتبع الواجب الاعتبار.

28 - وقد اختلف الفقهاء في الشروط التي تعتبر جائزة ويجب العمل بها، والشروط التي تخالف الشرع أو تنافي مقتضى الوقف، وبتتبع ما ذكره الفقهاء من الشروط يمكن تقسيمها إلى ثلاثة أقسام.

أ - شروط باطلة ومبطلة للوقف، مانعة من انعقاده؛ لأنها تنافي لزوم الوقف.

ب - شروط باطلة إذا شرطها الواقف صح الوقف وبطل الشرط.

ج - شروط صحيحة يصح الوقف والشرط فيها، وهذه الشروط بأنواعها تختلف من مذهب إلى مذهب.

فقد يكون الشرط باطلا في مذهب صحيحا في مذهب آخر، بل أحيانا يختلف فقهاء المذهب الواحد في المثال الواحد فيبطله بعضهم ويصححه غيرهم...

القسم الثاني: شروط باطلة، إذا شرطها الواقف صح الوقف وبطل الشرط، والأمثلة في هذا القسم تختلف من مذهب إلى مذهب.

ومن أمثلة ذلك عند الحنفية:

أ - لو شرط الواقف أن يكون لمن يتولى من أولاده إدارة الوقف العزل والنصب وسائر التصرفات ولا يداخلهم أحد من القضاة والأمراء وإن داخلوهم فعليهم لعنة الله، فهذا شرط مخالف للشرع وفيه تفويت المصلحة للموقوف عليهم وتعطيل الوقف فلا يقبل، ولأن الشرائط المخالفة للشرع لغو وباطل.

ب - لو شرط الواقف أن لا يعزل القاضي أو السلطان المتولي على الوقف فإنه يجوز للقاضي عزله لو كان خائنا؛ لأنه شرط مخالف لحكم الشرع فبطل.

ج - لو شرط الواقف أن لا يكون للقاضي أو السلطان كلام في الوقف فإنه شرط باطل وللقاضي الكلام؛ لأن نظره أعلى، وهذا شرط لا فائدة فيه للوقف ولا مصلحة فلا يقبل."

(وقف، شروط الواقفين، ج: 44، ص: 132، ط: دار السلاسل)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144407100623

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں