آپ نے اپنے دو فتاویٰ میں جن کے نمبر درج ذیل ہیں میں لکھا ہے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی کعبہ میں پیدائش ہونے والی روایت ضعیف ہے:
۱- 144412100536
۲- 144501100836
لیکن آپ نے اپنے ایک تفصیلی فتویٰ ( فتویٰ نمبر: 144307102494) میں جس کا عنوان "بارہ ائمہ کے حالات" ہے، اس میں آپ نے حضرت علی کے تعارف میں لکھا ہے کہ :حضرت علی رضی اللہ عنہ :آپ کا اسم ِگرامی علی ہے اور کنیت ابوالحسن اور ابو تراب ہے اور لقب حیدر ہے ،آپ کے والد کا نام ابو طالب ہے، آپ کی پیدائش ۱۳ رجب جمعہ کے دن کعبہ میں ہوئی ،صغرسنی میں بعض وجوہ کی بنا پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی کفالت میں آگئے اور دربار نبوت سے آخر تک جڑے رہے۔
براہ کرم اس کی وضاحت فرما دیں اور اگر اس فتویٰ میں غلطی ہے تو براہ کرم اسے دور فرما دیں ، اور آپ کے فتاویٰ میں جو تعارض ہے، براہ کرم اسے دور فرما دیں۔
واضح رہے کہ ضعیف اور موضوع روایات میں فرق ہے،صحیح روایت کے نہ ہونے کی صورت میں ضعیف روایت کو فضائل اور واقعات میں بیان کرنا جائز ہے؛ یہی وجہ ہے کہ بڑے بڑے محدثین نے اپنی کتابوں میں صحیح روایات کے ساتھ ضعیف روایات کو بھی لائے ہیں، ضعیف احادیث کا حکم بھی وہی سمجھنا جو موضوع اور من گھڑت احادیث کا ہے، بہت بڑی غلطی ہے۔
صحيح قول کے مطابق بیت اللہ شریف کے اندرحضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ کے علاوہ کسی اور شخص کی ولادت نہیں ہوئی، امام ابو عبد اللہ رحمہ اللہ مستدرک حاکم میں کعبہ شریف میں حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ کی ولادت کے متعلق مذکورہ روایت ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ اس روایت کے راوی مصعب کو وہم ہوا ہے، حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ کے علاوہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لیے بھی یہ اعزاز تواتر سے ثابت ہےکہ ان کی پیدائش کعبہ شریف میں ہوئی ہے،لیکن حاکم کے اس قول کو ائمہ حدیث نے ضعیف قرار دیاہے، موضوع نہیں کہا ہے، اورضعیف روایت کو بیان کرنے اور اس سے استدلال کرنے کی اجازت ہوتی ہے، اس لیے ہمارے ویب سائٹ کے ایک فتوے میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے حالات ذکر کرتے وقت اس روایت کو لیا گیاہے۔
تذکرۃ الموضوعات للفتنی میں ہے:
"والضعيف ما لم يجتمع فيه شرطا الصحة والحسن، ويجوز عند العلماء التساهل في أسانيد الضعيف بلا شرط بيان ضعفه، في الوعظ والقصص والفضائل، لا في صفات الله والحلال والحرام".
(تذكرة الموضوعات للفتني:مقدمة، الأول في اصطلاح الحديث وشروط روايته (ص:5)، ط. إدارة الطباعة المنيرية، الطبعة الأولى:1343 هـ)
مستدرک حاکم میں ہے:
"أخبرنا أبو بكر محمد بن أحمد بن بالويه، ثنا إبراهيم بن إسحاق الحربي، ثنا مصعب بن عبد الله، فذكر نسب حكيم بن حزام وزاد فيه، «وأمه فاختة بنت زهير بن أسد بن عبد العزى، وكانت ولدت حكيما في الكعبة وهي حامل، فضربها المخاض، وهي في جوف الكعبة، فولدت فيها فحملت في نطع، وغسل ما كان تحتها من الثياب عند حوض زمزم، ولم يولد قبله، ولا بعده في الكعبة أحد» قال الحاكم: «وهم مصعب في الحرف الأخير، فقد تواترت الأخبار أن فاطمة بنت أسد ولدت أمير المؤمنين علي بن أبي طالب كرم الله وجهه في جوف الكعبة»."
(أخرجه الحاكم في ذكر مناقب حكيم بن حزام القرشي رضي الله عنه (3/ 550) برقم (6044)، ط. دار الكتب العلمية، بيروت، الطبعة الأولى: 1411= 1990)
تہذیب الاسما ء واللغات للنووی میں ہے:
"قالوا: ولد حكيم فى جوف الكعبة، ولا يُعرف أحد ولد فيها غيره، وأما ما روي أن علي بن أبى طالب-رضى الله عنه- ولد فيها، فضعيف عند العلماء".
(تهذيب الأسماء واللغات للنووي: حرف الحاء، حكيم (1/ 166). دار الكتب العلمية، بيروت)
تدریب الراوی میں ہے:
"قال شیخ الإسلام: و لایعرف ذٰلك لغیرہ، وما وقع في "مستدرک الحاکم": من أن علیًّا وُلِدَ فیھا، ضعیفٌ."
(تدريب الراوي في شرح تقريب النووي:النوع الستون:التواريخ والوفيات، الثاني: صحابيان عاشا ستين سنة في الجاهلية.. (2/ 880)، ط. دارطيبة)
شرح نهج البلاغة لابن عبد الحمید بن هبة اللہ میں ہے:
"واختلف في مولد علي (رضي اللہ عنہ) أین کان؟ فکثیر من الشیعة یزعمون أنه ولد في الکعبة، والمحدّثون لایعترفون بذٰلك، ویزعمون أن المولود في الکعبة حکیم بن حزام بن خویلد بن أسد بن عبد العزی بن قصي".
(شرح نھج البلاغة لأبي حامد عز الدين بن هبة الله: القول في نسب أمیر الموٴمنین علي بن أبي طالب (1/ 16)، ط. دار الكتب العلمية)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144601101452
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن