بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

6 جمادى الاخرى 1446ھ 09 دسمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

وقف النبی کا مطلب


سوال

قرآن مجید میں جہاں وقف آتا ہے جس کے آگے لکھا ہوتا ہے (وقف النبی علیہ السلام) ، اس وقف پر بعض لوگ کہتے ہیں کہ ٹھہر نا سنت ہے ، تو کیا یہ بات درست ہے؟

جواب

واضح رہے کہ وقف  کہتے ہیں: "کلمہ کے اخیر میں کچھ دیر کے لیے آواز کو قطع کرنا" نیز  قرآن کریم میں کسی بھی مقام پر وقف کرنا یا نہ کرنا  لازم، واجب یا حرام نہیں ہے،البتہ بعض مواقع پر ملاکر پڑھنے کے سبب  یا وقف کرنے کی وجہ معنی میں بگاڑ پیدا ہوجاتا ہے ، لہذا یسے مواقع پر وقف یا وصل کرنا منع ہے۔

  چناں چہ علامہ جزری رحمہ اللہ اپنے رسالہ مقدمہ جزری میں  رقم طراز ہیں:

"وليس في القرآن من وقف وجب ۔۔۔۔ ولا حرام غير ماله سبب"

(باب معرفة الوقوف، ص:12، ط:قرات اكيڈمي لاهور)

ترجمہ:اور قرآن کریم میں کوئی بھی وقف (حکم کے اعتبار سے ) واجب اور حرام نہیں ہے ،سوائے (اس وقف کے ) جس کا کوئی سبب ہو۔

لہذا اس سے یہ بات واضح ہوئی قرآن کریم میں جو وقف کی مختلف علامت درج ہیں، ان  کا  قرآن و سنت سے کوئی  ثبوت نہیں ہے، لیکن بسا اوقات قرآن کریم  کی تلاوت کے دوران غلط جگہ وقف کرنے سے یا صحیح مقام پر وقف نہ کرنے سے ، یاوقف کرکے  اعادہ غلط مقام سے کرنے کے سبب بات کفر تک پہنچ جاتی نیز نماز تک فاسد ہوجاتی ہے جیسا کہ ایک حدیث سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ  صحیح مقام پر وقف کرنا ضروری ہے۔

امام ابو جعفر طحاویؒ نے ’’شرح مشکل الآثار‘‘ میں حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ سے ایک روایت نقل کی ہے کہ" جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں دو افراد آۓ اور  ان میں سے  ایک صاحب نے گواہی دیتے ہوے کہا ’’من اطاع اللہ ورسولہ فقد رشد و من عصاھما.‘‘یہ کہہ کر اس شخص  نے بات موقوف کر دی اور جملہ مکمل نہیں کیا۔ اس پر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے یہ فرما کر ڈانٹ دیا کہ ’’بئس الخطیب انت، قم!‘‘ تم برے خطیب ہو، اٹھ جاؤ۔"اب یہاں  قائل نے  ’’ومن عصاھما فقد رشد‘‘ تک   کہہ کر جملہ مکمل نہیں کیا،بلکہ اس کے ساتھ" ومن عصاہما "کو بھی ملایا، پھر وقف کیا، لہذایہ    آخری جملہ کا مذکورہ ٹکرا   پہلےجملے  کے ساتھ شمار ہو گیا اور معنی یہ بن گیا کہ جس نے اللہ اور رسول اکرمﷺ  کی نافرمانی کی تو وہ بھی ’’فقد رشد‘‘ کے زمرہ میں شامل ہو گیا، یعنی جس نے فرمانبرداری کی وہ ہدایت پا گیا اور جس نے نافرمانی کی وہ بھی (نعوذ باللہ) ہدایت پر ہے،چناں چہ  غلط جگہ وقف کرنے کے سبب بات کفر تک پہنچ گئی ، اس لیے اللہ کے نبی ﷺ نے ناگواری کا اظہار فرمایا،لہذا علماء نے  اس امر  کو مدنظر رکھتے ہوے عوام کی سہولت کے لیےقرآن کریم میں وقف کو  اہتمام سے درج کیا ،تاکہ عوام کفر اور نماز کے فاسد ہونے سے بچ جاۓ۔

اسلاف میں سے سب سے پہلے جنہوں نے اس  کام کو سرانجام دیا ان کا نام   ابو عبدالله محمد ابن ابو یزید طیفور سجاوندی غزنوی جن کا لقب  شمس‌الدین اور کنیت  ابوالفضل السَجاوندی القاری (وفات 1165 عیسوی یا 560 ھ) ہے۔محمدبن ابی‌یزید طیفور نے چھٹی صدی ہجری میں قاریوں کی رہنمائی کے لیے، قرآن کو لکھنے میں پہلی بار  وقف کی علامتیں استعمال کیں اور انہوں نے  قرآنی تلاوت کے تلفظ اور وقفوں کی نشان دہی کرنے کے لیے قواعد و ضوابط تیار کیے تھے ، جسے رموز الاوقاف السجاوندی کے نام سے جانا جاتا ہے۔ قرآن مجید میں آیات کو الگ کرنے کے ایک ذریعہ کے طور پر حلقوں کو استعمال کرنے  کے پہلے فرد تھے ، جو سلسلہ  آج تک قائم ہے ، دائرے کے اندر ایک آیت نمبر کے اضافے کے ساتھ۔ 

واضح رہے كہ  پاکستانی مصاحف میں جو  بعض مواقع پر وقف النبی لکھا ہوتا ہے ،اس کا مطلب یہ بتایا جاتا ہے کہ یہاں وقف کرنا حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے،لیکن اس کی کوئی سند موجود نہیں ہےاور عربی مصاحف میں یہ وقف النبی نہیں لکھا ہوتا۔

ملفوظات حکیم الامت میں ہے:

" فرمایا : وقف غفران اور وقف النبی کے متعلق قراء کہتے ہیں کہ وقف کرنے سے مغفرت ہوتی ہے، اور وقف النبی حضور کی سنت ہے، مگر میری نظر سے اس کی کوئی سند نہیں گزری۔"

( وقف غفران اور وقف النبی صلی اللہ علیہ وسلم ،208/14،ط: ادارہ تالیفات اشرفیہ)

شرح مشکل الآثار میں ہے:

"عن عدي بن حاتم قال: " جاء رجلان إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فتشهد أحدهما فقال: من يطع الله ورسوله فقد رشد، ومن يعصهما. فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ‌بئس ‌الخطيب ‌أنت، قم ". قال: وكان المعنى عندنا والله أعلم أن ذلك يرجع إلى معنى التقديم والتأخير، فيكون من يطع الله ورسوله ومن يعصهما فقد رشد، وذلك كفر، وإنما كان ينبغي له أن يقول: ومن يعصهما فقد غوى ، أو يقف عند قوله: فقد رشد، ثم يبتدئ بقوله: ومن يعصهما فقد غوى، وإلا عاد وجهه إلى التقديم والتأخير الذي ذكرنا، كمثل ما عاد إليه معنى قول الله عز وجل: {وإذ يرفع إبراهيم القواعد من البيت وإسماعيل} [البقرة: 127] إلى قوله جل وعز: وإذ يرفع إبراهيم وإسماعيل القواعد من البيت. وكمثل ما عاد إليه قوله جل وعز: {واللائي يئسن من المحيض من نسائكم إن ارتبتم فعدتهن ثلاثة أشهر، واللائي لم يحضن} [الطلاق: 4] إلى معنى قوله: واللائي يئسن من المحيض من نسائكم واللائي لم يحضن إن ارتبتم فعدتهن ثلاثة أشهر. وإذا كان ذلك مكروها في الخطب وفي الكلام الذي يكلم به بعض الناس بعضا، كان في كتاب الله عز وجل أشد كراهة ، وكان المنع من رسول الله صلى الله عليه وسلم من الكلام بذلك أوكد ، والله عز وجل نسأله التوفيق."

(‌‌باب بيان مشكل ما روي عن رسول الله صلى الله عليه وسلم مما يدل على أنه لا ينبغي للرجل في كلامه أن يقطعه إلا على ما يحسن قطعه عليه، ولا يحول به معناه عن ما تكلم به من أجله،371/8،ط:مؤسسة الرسالة)

«شرح  طیبہ النشر فی القرات العشر میں ہے:

"والوقف: ‌قطع ‌الصوت على آخر الكلمة زمنا يتنفس فيه عادة بنية استئناف القراءة."

(‌‌فصل: فى صحة الصلاة بها،‌‌مخارج الحروف وصفاتها،صفاتها،وفيهما رعاية الرّسم اشترط،272/1،ط:دار الكتب العلمية)

الميزان فی احكام تجويد القرآن میں ہے:

"الوقف الاختياري: يكون الوقف اختياريا إذا قصده القارئ بمحض إرادته من غير عروض سبب خارجي. وهذا الوقف الاختياري هو محل دراستنا في هذا الموضع.

حكمه: جائز ما لم يوجد ما يوجبه أو يمنعه. وعلينا أن نعلم أنه ليس في القرآن وقف واجب شرعا بحيث لو تركه القارئ يأثم، كما أنه ليس هناك أيضا وقف حرام شرعا بحيث لو فعله القارئ يأثم إلا ما أفسد المعنى. فعلى القارئ حينئذ أن يتجنبه، فإن توخى الوقف عليه متعمدا أثم ولا شك، لما يترتب على ذلك من عدم إيضاح المعنى، أو إيهام غيره مما ليس مقصودا من كلام الله تعالى وقد أشار «ابن الجزري» إلى ذلك قائلا: ‌ليس ‌في ‌القرآن ‌من ‌وقف ‌وجب … ولا حرام غير ما له سبب."

(‌‌الوقف والابتداء،الوقف،197،ط:دار الإيمان)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144409100978

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں