بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

4 جمادى الاخرى 1446ھ 07 دسمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

وقف النبی، وقفِ غفران اور وقفِ لازم کی وجہ تسمیہ اور ان کے احکام/ سورۃ البروج کی آیت میں حمصیہ کیا مطلب


سوال

1:  قرآنِ کریم میں  وقف النبی، وقفِ غفران، وقفِ لازم ، ان کا مطلب کیا ہے یعنی ان اوقاف کو یہ نام کس وجہ سے دیے گئے ہیں؟ اور ان اوقاف پر وقف کیا جائے یا نہیں؟

2: سورۃ یاسین آیت نمبر 52 میں وقفِ غفران، وقفِ منزل، وقفِ لازم اور سکتہ چاروں ایک جگہ لکھے ہوئے ہیں ، اس کو کس طرح پڑھا جائے؟

3: سورۃ الملک آیت نمبر 19 میں وقفِ لازم، وقفِ منزل اور وقفِ غفران تینوں ایک جگہ لکھے ہوئے ہیں، اس کو کس طرح پڑھا جائے؟

4: سورۃ البروج آیت نمبر 11 پر آیت  حمصية لکھا ہوا ہے،  اس کا کیا مطلب ہے؟

جواب

1: واضح رہے کہ قرآنِ کریم میں مختلف قرآنی جملوں پرایسے اشارے لکھ دیے گئے ہیں جن سے یہ معلوم ہوسکے کہ اس جگہ پر وقف کرنا(سانس لینا) کیسا ہے؟ ان اشارات کو’’رموزِ اوقاف ‘‘کہتے ہیں، ان کا مقصد یہ ہے کہ غیر عربی دان  انسان بھی جب تلاوت کرےتو صحیح جگہ پر وقف کرسکے، اور غلط جگہ سانس توڑنے سے معنی میں کوئی تبدیلی پیدا نہ ہو، ان علاماتِ اوقاف میں سے ایک  علامت:

  •  ’’م‘‘ ہے، قرآنِ مجید میں مختلف جگہوں پر حرفِ"م" یا وقفِ لازم لکھا ہوتا ہے ، اس کا مطلب یہ ہے کہ یہاں ٹھہرنا ضروری ہے  اور  ملا کر پڑھنے کی صورت میں معنی میں فساد اور اشتباہ واقع ہونے کا خطرہ ہے،لہذا ان جگہوں پر وقف کرنا چاہیے، لیکن یہ وقف واجب اور فرض نہیں ہے کہ اس کے ترک پر گناہ لازم ہو،بلکہ قواعدِ تجوید کے لحاظ سے یہاں وقف کرنا سب سے زیادہ بہتر ہے، جیسا کہ مفتی شفیع صاحبؒ نے معارف القرآن میں لکھاہے:

’’م‘‘ : یه وقفِ لازم  کا مخفف ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر یہاں وقف نہ کیا جائے تو آیت کے معنی میں فحش غلطی کا اِمکان ہے، لہذا یہاں وقف کرنا زیادہ بہتر ہے، بعض حضرات اسے وقفِ  واجب بھی کہتے ہیں ، لیکن اس سے مراد فقہی واجب نہیں جس کے ترک سے گناہ ہو، بلکہ مقصد صرف یہ ہے کہ تمام اوقات میں اس جگہ وقف کرنا سب سے زیادہ بہتر ہے۔‘‘

(مقدمہ، ج:1، ص:47، ط: معارف القرآن)

المنح الفکریۃ شرح المقدمۃ الجزریۃ میں ہے:

"وليس في القرآن من وقف وجب : : ولاحرام غير ماله سبب

 وحاصل معنى البيت بكماله: أنه ليس في القرآن وقف واجب يأثم القارئ بتركه ولا وقف حرام يأثم بوقفه."

(ص:62، ط: مصطفى البابي الحلبي)

فتاوی فریدیہ میں ہے:

’’وقفِ لازم سے مراد مؤکد ہے،واجب نہیں ہے،پس ترک کرنے والا آثم ( گنہگار ) نہیں ہے،خصوصاً جب ترجمہ میں مہارت نہ رکھتا ہو ۔‘‘

(کتاب الصلاۃ ،باب القراءۃ فی الصلوۃ ،457/2،ط:دار العلوم صدیقیہ ،زروبی ) 

  • وقفِ غفران کے متعلق علماء نے یہ لکھا ہے کہ اس جگہ وقف کرنے سے مغفرت ہوجاتی ہے، اس وجہ سے اسے وقفِ غفران کہتے ہیں۔
  •  پاکستانی مصاحف میں بعض مواقع پر وقف النبی لکھا ہوتا ہے ،اس کا مطلب یہ بتایا جاتا ہے کہ یہاں وقف کرنا حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے،لیکن اس کی کوئی سند موجود نہیں ہے، نیز یہ علامتِ وقف عربی مصاحف میں  نہیں لکھی ہوئی ، جیسا کہ حضرت تھانویؒ نے اپنے ملفوظات میں لکھاہے:

’’ فرمایا : وقف غفران اور وقف النبی کے متعلق قراء کہتے ہیں کہ وقف کرنے سے مغفرت ہوتی ہے اور وقف النبی حضور کی سنت ہے، مگر میری نظر سے اس کی کوئی سند نہیں گزری۔‘‘

( وقف غفران اور وقف النبی صلی اللہ علیہ وسلم ،208/14،ط: ادارہ تالیفات اشرفیہ)

2، 3: سورۃ یاسین  کی آیت نمبر 52 (جس پر وقفِ غفران، وقفِ منزل، وقفِ لازم اور سکتہ لکھا ہوا ہے) ، سورۃ الملک کی آیت نمبر 19 ( وقفِ لازم، وقفِ منزل اور وقفِ غفران) کو صحیح کس طرح پڑھا جائے، اس کے لیے کسی ماہر مشاق قاری سے پوچھ لیا جائے، البتہ وقفِ لازم اور سکتہ میں کوئی فرق نہیں ہے، کیوں کہ وقفِ لازم سے مقصود یہ ہوتا ہے کہ وہاں فصل ہونا چاہیے، کیوں کہ اس جگہ وصل (ملانے)  کی صورت میں معنی کے فساد کا وہم ہوتا ہے، جب کہ یہ صورت سکتہ سے حاصل ہوجاتی ہے، جیسا کہ حضرت تھانوی ؒ نے امداد الفتاوی میں لکھا ہے:

’’سورہ یسین شریف میں مرقدنا پر وقف لازم صحیح ہے یا سکتہ: 

سوال:

سورہ یسین میں من مرقدنا پر اکثر قرآن شریف میں وقفِ  لازم وغیرہ لکھا ہے اور حفص سے سکتہ منقول ہے تو سکتہ لکھنا صحیح ہے یا وقفِ لازم؟  بصورتِ  اختلاف رسالہ سجاوندی اور منار الہدی کون زیادہ قابل اعتبار ہے؟

الجواب: 

میرے نزدیک دونوں میں تعارض نہیں؛ کیوں کہ  وقفِ  لازم کا حاصل یہ ہے کہ وہاں فصل ہونا  چاہیے بوجہ اس کے کہ وصل سے ایہامِ فسادِ معنی ہوتا ہے اور یہ غرض سکتہ سے بھی حاصل ہو جاتی ہے پس وقف با اعتبار قطع نفس کے ضروری نہ ہوگا اس طور پر تعارض نہ رہا۔‘‘

(فصل فی التجوید، ج:1، ص:259، ط: دار العلوم کراچی)

4: واضح رہے کہ علوم القرآن مختلف فنون  پر مشتمل ہے، ان ہی میں سے ایک فن’’ علم  عدّآیات القرآن ‘‘ ہے،  جس  میں  قرآنِ کریم کی آیات کی تعداد کے بارے میں  بحث کی جاتی ہے کہ  قرآنِ کریم میں کتنی آیات ہیں اور  کہاں کہاں آیت مکمل ہوتی ہے؟چناں چہ اس بارے میں تفصیل کرتے ہوئےعلامہ ابنِ جوزیؒ نے پانچ مذاہب بیان کیے ہیں، پھر آگے کچھ  صفحوں بعد لکھا ہے:

"و قد روي عن أهل ‌حمص خلاف لما روي عن أهل الشام مطلقاً."

 جس سے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ قرآنِ کریم کی آیات کےبارے میں أہلِ حمص کا مستقل ایک مذہب ہے، لہذا سورۃ البروج کی آیت نمبر11 میں جو حمصیۃ لکھا ہوا ہے،  یہ اہلِ حمص کی طرف منسوب ہے، اور اس کامطلب یہ ہے کہ اہلِ حمص کے ہاں سورۃ البروج کی آیات کی تعداد 23 ہیں، جن میں سے 11نمبر آیت دوآیتوں پر مشتمل ہے، یعنی ’’تجري من تحتها الأنهار‘‘ پر آیت مکمل ہوتی ہے اور اس کے بعد’’ ذلك الفوز الكبير ‘‘ مستقل آیت ہے، جب کہ جمہور علمائے کرام کے نزدیک سورۃ البروج 22 آیات پر مشتمل ہے، تجري من تحتها الأنهار پر آیت مکمل نہیں ہوتی، بلکہ یہ آیت کے وسط میں ہے اور ذلك الفوز الكبيرپر آیت مکمل ہوتی ہے،  ہمارے مروجہ مصاحف میں بھی یہی ہے، خلاصہ یہ ہے کہ سورۃ البروج کی آیت نمبر 11 میں جہاں حمصیۃ لکھا ہوا ہے  اس سے اسی اختلاف کی طرف اشارہ ہے۔

فنون الأفنان میں ہے:

"‌‌سورة البروج: اثنتان وعشرون آية في قول الجميع، بلا خلاف بينهم في شيء منها، إلا قول أهل حمص فإنها في عدّهم ثلاث وعشرون. قال أبو الحسين بن المنادي: "فإن كانوا عدوا (تجري من تحتها الأنهار) آية وإلا فلا يُدرى من أين جاءت زيادتهم. "

(باب عدد أيات السور، سورة البروج، ص:321، ط: دار البشائر)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144408101704

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں