بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

وقف سے رجوع کرنا، مسجد کے برآمدے کے تہہ خانے میں باتھ روم بنانا


سوال

۱۔اگر کسی مسجد کے برآمدے کے تہہ خانے میں باتھ  روم ہوں ،تو اس کا کیا حکم ہے؟

وضاحت: مذکورہ مسجد کے لیے پہلے مخصوص زمین وقف کی تھی،اس وقت اس پر کوئی تعمیر نہیں ہوئی تھی  اور یہ پوری زمین محض مسجد کے لیے وقف کی تھی،زمین کی سطح پر ہی نماز پڑھتے تھے،پھر یہاں تعمیر ہوئی تو اوپر کی منزل میں نمازیں پڑھنا شروع کردیں،اور اب مسجد کے برآمدے کے نیچے تہہ خانہ میں باتھ روم بنائے جارہے ہیں ،جب کہ باتھ روم والی جگہ کے بالکل اوپر چھت پر مسجد کا برآمدہ ہے جہاں نمازی نماز بھی پڑھتے ہیں۔  

۲۔مسجد کےلیے وقف زمین سے رجوع کرنا کیساہے؟

جواب

 ۱۔واضح رہے کہ مسجد کی زمین تحت الثریٰ سے لے کر فضا میں آسمان تک مسجد کے لیے ہی وقف ہوتی ہے،اس زمین کو مسجد کے علاوہ کام میں لانا جائز نہیں ۔

صورت ِ مسئولہ  چو  ں كہ مذکورہ زمین  ابتداءً مسجد کے لیے ہی وقف تھی ،لہٰذا اب   اس زمین پرمسجد کے برآمدے کے تہہ خانے میں باتھ روم بناناجائز نہیں۔

۲۔زمین وقف کرنے کے بعد واقف کی ملکیت سے نکل کر اللہ تعالیٰ کی ملکیت میں چلی جاتی ہے، اور پھروقف کرنے کے بعد موقوفہ چیز  كو فروخت کرنا ،ہبہ کرنا اور وقف سے رجوع کرنا جائز نہیں، لہٰذا صورتِ مسئولہ میں وقف  زمین سے رجوع کرنا جائز نہيں۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"لو بنى فوقه بيتا للإمام لا يضر لأنه من المصالح، أما ‌لو ‌تمت ‌المسجدية ثم أراد البناء منع ولو قال عنيت ذلك لم يصدق تتارخانية."

(كتاب الوقف،ج:4،ص:358،ط:سعيد)

"البحر الرائق "میں ہے:

"حاصله: أن شرط كونه مسجداً أن يكون سفله وعلوه مسجداً؛ لينقطع حق العبد عنه؛ لقوله تعالى: {وأن المساجد للّٰه}."

(  کتاب الوقف، فصل فی أحکام المسجد،5/ 271، ط: دارالکتاب الإسلامی، بیروت)

"ردالمحتار مع تقريرات الرافعي" مىں هے:

"بقي لوجعل الواقف تحته بیتا للخلاء ہل یجوز کما في مسجد محلّة الشحم فی دمشق؟ لم أرہ صریحا . 

قال الرافعي: الظاہر عدم الجواز وما یأتي متنا لایفید الجواز ؛ لأنّ بیت الخلاء لیس من مصالحه علی أنّ الظاهر عدم صحّته جعله مسجدا بجعل بیت الخلاء تحته کما یأتي أنّه لو جعل السقایة أسفله لا یکون مسجدا فکذا بیت الخلاء؛ لأنهما لیسا من المصالح ."

(كتاب الصلاة،مطلب في أحكام المسجد،ج:1،ص:565،(تقريرات الرافعي،ج:1،ص:85)،ط:سعيد)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"وعندهما حبس العين على حكم ملك الله تعالى على وجه تعود منفعته إلى العباد فيلزم ولا يباع ولا يوهب ولا يورث كذا في الهداية وفي العيون واليتيمة إن الفتوى على قولهما".

(كتاب الوقف ، الفصل الأول في تعريف الوقف ....الخ،ج: 2،ص: 350، ط: دار الفكر)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"‌لا ‌يجوز ‌الرجوع ‌عن ‌الوقف."

(كتاب الوقف، مطلب في إقالة المتولي عقد الإجارة، ج:4،ص:456،ط:سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144403100374

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں