بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

28 شوال 1445ھ 07 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

وقف شدہ حصہ سے باہر شارع عام کے کچھ حصہ میں صفیں بن جانے کے بعد اسے توڑنے کا حکم


سوال

ہمارے والد  صاحب نے سائٹ ایریا میں اپنی فیکٹری کے اندرایک ٹکڑا مسجد کے لیے وقف کیا ، جہاں اب تک الحمدللہ مسجد موجود ہے، مسجد کی نوعیت یہ ہے کہ مسجد کے اوپر دو منزلیں ہیں ، اکثر نمازوں میں نمازی نیچے کی منزل میں آجاتے ہیں اور جب کسی نماز میں مشکل ہوتی ہے، تو اوپر کی منزل میں نمازی چلے جاتے ہیں،  خلاصہ یہ کہ پانچوں نمازوں کی ادائیگی میں جگہ کی کوئی تنگی نہیں ۔

تاہم کچھ عرصہ قبل جتنا احاطہ مسجد کے لیے وقف تھا، اس سے آگے مشرق کی جانب تقریباً دس سے بارہ فٹ چوڑی اور پندرہ سے سولہ فٹ لمبی جگہ پر ٹائلیں لگا کر پکا فرش بنادیا گیا، ماربل کی صفیں بھی بچھا دی گئیں، اور اس کے تینوں اطراف ایک گز یا ڈیڑھ گز کی ایک منڈیر بنادی گئی ، جس کے  بعد وہاں نمازی نماز ادا کرسکتے ہیں  اور اس جگہ میں وضوخانہ بھی بنایا ، یہ سب کچھ مسجد کے لیے وقف شدہ احاطہ کے باہر بنایا گیا اور اصولاًیہ جگہ شارع عام ہے اور سڑک کی جگہ ہے۔

اسی طرح مسجد سے شما ل کی جانب چند قدم کے فاصلے پر کچھ بیت الخلاء بھی تعمیر کیے گیے ہیں ، وہ بھی وقف شدہ احاطہ کے باہر ہیں، اگر چہ وہ جگہ سڑک کے لیے قابلِ استعمال نہیں ، جیسا کہ عام طور پر سڑکوں کےکنارے میں مٹی کے ڈھیر لگے ہوتے ہیں ، اس طرح کی جگہ ہے ، لیکن مسجد کی جگہ نہیں ہے۔

حال ہی میں ایک ساتھی نے توجہ دلائی کہ یہ صفیں جو آپ نے مسجد کے احاطے سے آگے بنائی ہوئی ہیں، درست نہیں ہے، غور کرنے پر محسوس ہوا کہ یہ کام بے دھیانی میں ہوگیا ہے، بالخصوص جہاں پکا فرش تعمیر ہے ، اور چار پانچ صفیں بنائی گئی ہیں، اس کی کوئی اضطراری ضرورت بھی نہیں ہے، جیسا کہ اوپر گزرا، بظاہر غیر ارادی طور پر ایسا ہوگیا ہے۔

یہاں ایک وضاحت یہ عرض ہے کہ یہ احاطہ جو بڑھا دیا گیا ہے، مسجد سے باہرہے اور درمیان میں سیڑھی اور وضو خانہ بھی ہے، اس لیے اگر کوئی نمازی جماعت کی نماز میں اس جگہ میں نماز پڑھے تو إتصال کا مسئلہ ہوتاہے، اس لیے موقع بموقع امام صاحب کو اعلان کرنا پڑتا ہے کہ براہِ کرم اگر مسجد کا اندرونی حصہ بھر جائے تو نماز کے لیے اوپر تشریف لے جائیں ، باہر صف نہ بنائیں ، چوں کہ وہ دیکھنے میں مسجد ہی کا احاطہ لگتا ہے، اس لیے کبھی کبھی لوگ اوپر جانے کے بجائے، وہیں نیت باندھ لیتے ہیں، چناں چہ اب ہمارا یہ ارادہ بن رہا ہے کہ مسجد کے احاطے کے باہر سرکاری جگہ پر (جوکہ شارع عام ہے، اور سڑک کی جگہ ہے)جتنی صفیں بنی ہوئی ہیں ، ان کو توڑدیا جائے ، سوال یہ ہےکہ اس اقدام میں شرعاً کوئی حرج تو نہیں ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں جس جگہ پر مسجد کی کچھ صفیں بنائی گئی ہیں،  چوں کہ وہ  جگہ وقف شدہ احاطہ سے باہرہےاور شارع عام ہونے کے ساتھ ساتھ مسجد کی ضرورت اور استعمال سے زائدبھی ہےتو ان صفوں کو توڑنے میں شرعاً کوئی قباحت نہیں ہے۔   

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"قوم بنوا مسجدا و احتاجوا إلى مكان ليتسع المسجد و أخذوا من الطريق وأدخلوه في المسجد إن كان يضر بأصحاب الطريق لا يجوز وإن كان لا يضر بهم رجوت أن لا يكون به بأس، كذا في المضمرات وهو المختار، كذا في خزانة المفتين۔"

(کتاب الوقف، الفصل الأول فیما یصیر بہ مسجداًوفی أحکامہ وأحکام  ما فیہ، ج:2، ص:456،ط:رشیدیہ)

وفیہ ایضاً:

"البقعة الموقوفة على جهة إذا بنى رجل فيها بناء ووقفها على تلك الجهة يجوز بلا خلاف تبعًا لها، فإن وقفها على جهة أخرى اختلفوا في جوازه والأصح أنه لايجوز كذا في الغياثية."

(کتاب الوقف، الباب الثاني فيما يجوز وقفه وما لا يجوز وفي وقف المشاع،ج:2 ، ص:362، ط:رشیدیہ)

فتاوی شامی میں ہے:

"ولو صلى على رفوف المسجد إن وجد في صحنه مكانا كره ‌كقيامة في صف خلف صف فيه فرجة. قلت: وبالكراهة أيضا صرح الشافعية. قال السيوطي في [بسط الكف في إتمام الصف] : وهذا الفعل مفوت لفضيلة الجماعة الذي هو التضعيف لا لأصل بركة الجماعة، فتضعيفها غير بركتها، وبركتها هي عود بركة الكامل منهم على الناقص. اهـ.

ولو وجد فرجة في الأول لا الثاني له خرق الثاني لتقصيرهم، وفي الحديث «من سد فرجة غفر له» وصح «خياركم ألينكم مناكب في الصلاة» وبهذا يعلم جهل من يستمسك عند دخول داخل بجنبه في الصف ويظن أنه رياء كما بسط في البحر۔

وفي الرد : (قوله ‌كقيامه في صف إلخ) هل الكراهة فيه تنزيهية أو تحريمية، ويرشد إلى الثاني قوله - صلى الله عليه وسلم - " ومن قطعه قطعه الله " ط"۔

(کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، ج:1، ص:570، ط:سعید)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144307100101

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں