بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

وقف شدہ مسجد کو بیچنےاور اس میں رہائش رکھنے کا حکم


سوال

ہمارے دادا مرحوم نے ایک پلاٹ تعمیراتی مقاصد کے لیے خریداتھا ،لیکن ان کے انتقال کے بعد چچاؤں نے اپنے والد کے نام صدقہ جاریہ کے واسطے مذکورہ پلاٹ پر مسجد تعمیر کی، جس کے اخراجات تمام بھائیوں نے مشترکہ طور پر ادا کیے( بغیر کسی خارجی چندہ لیے) اب مسجد چوں کہ تعمیر ہوچکی ہے، اس میں باقاعدہ نمازیں، جمعات، اور عیدین بھی ادا کی جاتی ہیں، اور ساتھ ہی مسجد کی چھت پر عام رہائش بھی رکھی ہوئی ہے، اب وہ اس مسجد کو کسی مذہبی ادارے کے ہاتھ فروخت کرنا چاہتے ہیں، کیا یہ خرید و فروخت درست ہے؟ 

جواب

واضح رہے کہ وقف جب صحیح ہوجائے،تو موقوفہ چیز تا قیامت واقف کي ملکیت سے نکل کر اللہ رب العزت کی ملکیت  میں داخل ہو جاتی ہے، اور وقف  کے مکمل ہونےکے بعد   اس کی خرید  وفروخت کرنا، ہبہ کرنا،  کسی کومالک بنا نا اور اس کو وراثت میں تقسیم کرنا شرعا جائز نہیں۔

صورت مسئولہ میں مذکورہ مسجد  کی بیع وشراء جائزنہیں ہے،اگر چہ انہوں نے مسجد بناتے وقت کسی سے چندہ نہ لیا ہو،اور اپنے پیسوں سے مسجد کی تعمیر کی ہو،نیز  جس جگہ مسجد تعمیر ہوجائے،وہ جگہ زمین سے آسمان تک مسجد کے حکم میں آجاتی ہے،مسجد  کی چھت بھی مسجد کے حکم میں ہوتی ہے، جس طرح سے مسجد کے اندر گھر بناناجائز نہیں، اسی طرح سے مسجد کے چھت پر بھی رہائشی گھر  بنا جائز نہیں۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"‌وعندهما ‌حبس ‌العين ‌على ‌حكم ‌ملك ‌الله تعالى على وجه تعود منفعته إلى العباد فيلزم ولا يباع ولا يوهب ولا يورث كذا في الهداية وفي العيون واليتيمة إن الفتوى على قولهما كذا في شرح أبي المكارم للنقاية."

(‌كتاب الوقف، الباب الأول في تعريف الوقف وركنه وسببه وحكمه وشرائطه والألفاظ التي يتم بها،ج: 2 ص:350 ط: رشیدیة)

فتاوی شامی میں ہے:

‌"والحاصل ‌أن ‌ههنا ‌مسألتين: الأولى أن بيع الوقف باطل ولو غير مسجد خلافا لمن أفتى بفساده، لكن المسجد العامر كالحر، وغيره كالمدبر."

(كتاب البيوع، باب البيع الفاسد، مطلب في بيع المغيب في الأرض، ج:5 ص:57 ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144502101493

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں