بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

وقف قربانی سے کیا قربانی ہوجاتی ہے؟


سوال

بعض لوگ بقرہ عید میں گاۓ مدرسے کو وقف کرتے ہیں، ساتھ میں قربانی کی نیت بھی کرتے ہیں، اب معلوم یہ کرنا ہے کہ آیا اس کی قربانی درست ہو جاۓ گی؟ یا صرف وقف کرنا درست ہوگا یا صرف قربانی درست ہوگی؟

جواب

صورتِ  مسئولہ میں اپنی قربانی کرنے کی ذمہ داری کسی معتمد  ادارے کے سپرد کرکے ،  تمام گوشت غرباء و مستحقین میں تقسیم کرنے کی ذمہ داری دینا شرعا جائز  ہوگا ، فی زمانہ اس طرح قربانی کرنے والوں کی نیت  قربانی کی ادائیگی کے بعد گوشت کی تقسیم ہی ہوتی ہے، اس عمل کو ہی عموما وقف کہا جاتا ہے،پس اس طرح کرنے سے قربانی ادا ہوجائے گی۔

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع میں ہے:

"(ومنها) أنه تجزئ فيها النيابة فيجوز للإنسان أن يضحي بنفسه و بغيره بإذنه؛ لأنها قربة تتعلق بالمال فتجزئ فيها النيابة كأداء الزكاة وصدقة الفطر؛ ولأن كل أحد لايقدر على مباشرة الذبح بنفسه خصوصًا النساء، فلو لم تجز الاستنابة لأدى إلى الحرج."

( كتاب التضحية، فصل في انواع كيفية الوجوب، ٥ / ٦٧، ط: دار الكتب العلمية)

رد المحتار على الدر المختار میں ہے:

"(ويأكل من لحم الأضحية ويأكل غنيا ويدخر، وندب أن لاينقص التصدق عن الثلث). و ندب تركه لذي عيال توسعة عليهم

(قَوْلُهُ: وَ يَأْكُلُ غَنِيًّا وَيَدَّخِرُ) لِقَوْلِهِ عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ  بَعْدَ النَّهْيِ عَنْ الِادِّخَارِ: «كُلُوا وَأَطْعِمُوا وَادَّخِرُوا» الْحَدِيثُ رَوَاهُ الشَّيْخَانِ وَأَحْمَدُ.

(قَوْلُهُ: وَنُدِبَ إلَخْ) قَالَ فِي الْبَدَائِعِ: وَالْأَفْضَلُ أَنْ يَتَصَدَّقَ بِالثُّلُثِ وَيَتَّخِذَ الثُّلُثَ ضِيَافَةً لِأَقْرِبَائِهِ وَأَصْدِقَائِهِ وَيَدَّخِرَ الثُّلُثَ؛ وَيُسْتَحَبُّ أَنْ يَأْكُلَ مِنْهَا، وَلَوْ حَبَسَ الْكُلَّ لِنَفْسِهِ جَازَ لِأَنَّ الْقُرْبَةَ فِي الْإِرَاقَةِ وَالتَّصَدُّقِ بِاللَّحْمِ تَطَوُّعٌ (قَوْلُهُ: وَنُدِبَ تَرْكُهُ) أَيْ تَرْكُ التَّصَدُّقِ الْمَفْهُومِ مِنْ السِّيَاقِ (قَوْلُهُ: لِذِي عِيَالٍ) غَيْرِ مُوَسَّعِ الْحَالِ بَدَائِعُ."

( كتاب الأضحية، ٦ / ۳۲۸، ط: دار الفكر)

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144106200809

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں